- نایاب جانوروں کی اسمگلنگ میں ملوث دو بھارتی خواتین گرفتار
- کراچی میں پولیو ورکر کو ہراساں کرنے پر سینئر مینجر گرفتار
- قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منگل کو طلب
- عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہوتے ہی وزیراعظم فوری پیٹرول سستا کردیں گے، مریم نواز
- ملک کو تمام مشکل حالات سے نکالنے کا واحد حل فوری انتخابات ہیں، عمران خان
- عمران خان نے ڈونلڈ لو اور امریکی حکومت سے معافی مانگ لی، خواجہ آصف کا دعویٰ
- ڈیڑھ برس سے ہیک سندھ پولیس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ تاحال بحال نہ ہوسکا
- وزیراعظم کی مسلم لیگ ق کے صدر سے ملاقات
- جاوید میانداد کا اسکول و کالج کی سطح پر ٹیب بال کرکٹ کو فروغ دینے کا مطالبہ
- لنڈی کوتل میں مویشی کی خریداری پر جھگڑا، فائرنگ سے ایک جاں بحق
- بھارت سے آزادی کیلئے سکھوں کا اٹلی میں ریفرنڈم، خالصتان کا نیا نقشہ جاری
- پنجاب حکومت کا فرح شہزادی کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا اعلان
- کراچی کی مویشی منڈی میں دو کوہان والے اونٹ خریداروں کی توجہ کا مرکز
- فرح شہزادی کا صوبائی وزرا کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان
- بیوی پرتشدد کے ملزم کی گرفتاری کیلیے آنے والی پولیس ٹیم پر فائرنگ؛ 3 اہلکار ہلاک
- ڈیلیوری بوائے کی گھوڑے پر کھانا پہنچانے کی ویڈیو وائرل
- روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کے ذریعے17 ہزار حجاج کی امیگریشن
- پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کے معاملے پر ہم بے بس ہیں، وزیر داخلہ
- ایکسپریس کے صحافی افتخار احمد سپرد خاک، وزیراعلیٰ کے پی کا قاتلوں کی گرفتاری کا حکم
- سائنس دانوں نے سمندر جانے والوں کو شارک سے خبردار کردیا
سندھ میں زمینوں کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ پر شکوک و شبہات

بیشتر ریکارڈ نئے سرے سے بنایا گیا، سابق ممبر بورڈ آف ریونیو،عمل شفاف ہے، ناصر شاہ۔ فوٹو: فائل
کراچی: سندھ میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے بظاہر عام آدمی کو سہولت میسر ہوئی ہے کہ محض سروے نمبر لکھنے سے متعلقہ زمین کا ریکارڈ سامنے آجائے گا لیکن کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تمام رکارڈ کیا قابل بھروسہ بھی ہے؟
حکومت سندھ کے ذمے دار زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کو شفافیت کی جانب اہم اقدام قرار دیتے ہیں جبکہ ایک رٹائرڈ بیوروکریٹ سمیت بعض لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ایک رٹائرڈ افسر،جو خود ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کے عہدے پر فائز رہے، کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ریکارڈ نئے سرے سے تیار کرنے کے بعد کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔
اس وجہ سے اس کے قابل بھروسہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے ’’ایکسپریس ‘‘ کو بتایا کہ کراچی سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ریکارڈ نئے سرے سے مرتب ( reconstruct ) کیا گیا تھا، انھوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ اضلاع میں ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرتے وقت زمینوں کے اصل کاغذات دستیاب نہیں تھے اور نئے سرے سے کاغذات بناکر انھیں کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔
ان کے مطابق مذکورہ ریکارڈ کو نئے سرے سے تیار کرنے کی سرکاری طور پرمختلف وجوہات بتائی گئی تھیں، جن میں اصل ریکارڈ کا آگ لگنے کے واقعات میں جل جانا اور پرانے ریکارڈ کا پھٹ کر ضایع ہوجانا جیسی وجوہات شامل تھیں، کراچی کے اولڈ ایریا میں زیادہ تر ریکارڈ کو نئے سرے سے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی تقریباً یہ ہی صورتحال دیکھنے میں آئی جہاں پورے کے پورے تعلقوں کا اصل ریکارڈ غائب تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ریکارڈ کی دستیابی کے معاملے میں میرپورخاص اور سانگھڑ جیسے اضلاع کو دیگر اضلاع کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں بھی کئی علاقو ں میں یہ صورتحال دیکھی گئی، صالح پٹ سمیت مختلف تعلقوں میں زمینوں کا اصل ریکارڈ دستیاب نہیں تھا،جب صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ریکارڈ میں گھپلوں کے الزام کو مسترد کیا اور کہا کہ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل شفاف طریقے سے کیا گیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔