صائب فیصلہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 12 نومبر 2020
موجودہ مشکل سیاسی ماحول میں کراچی انکوائری کا مکمل ہونا اور سیاسی افق پر اس کی پذیرائی ایک صائب عمل ہے۔ فوٹو: فائل

موجودہ مشکل سیاسی ماحول میں کراچی انکوائری کا مکمل ہونا اور سیاسی افق پر اس کی پذیرائی ایک صائب عمل ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج نے آئی جی سندھ کے واقعہ پر انکوائری کے بعد اس واقعہ کے ذمے داروں کو عہدوں سے ہٹا دیا۔ واضح رہے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر قائم کورٹ آف انکوائری نے اپنی انکوائری مکمل کر لی ہے، اس کی فائنڈنگ پر متعلقہ حکام کو موجودہ ذمے داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے، اور جی ایچ کیو میں اپنے اپنے شعبوں میں مزید انکوائری کی جائے گی۔

بادی النظر میں 18اور19اکتوبر کی درمیانی شب مزار قائد کی بے حرمتی کا واقعہ جس میں  ن لیگی رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس وقت کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسہ کی تیاریاں عروج پر تھیں اور شرکائے جلسہ کی بڑی تعداد مزار قائد کے باہر جلسہ میں شرکت کے لیے پہنچ رہی تھی، ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بیرونی سیکیورٹی بھی ٹیسٹ کیس تھا۔ اس تناظر میں مزار قائد کی بیحرمتی کے واقعہ کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی تھی، مزار قائد کے کسٹوڈینز بھی صورت حال پر سخت متاسف تھے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق ان افسروں نے واقعہ پر جذباتی ردعمل کا اظہار کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کی 18اکتوبر کو پیش آنے والے واقعہ کی شکایات پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورٹ آف انکوائری قائم کی تھی۔ اس نے اپنی رپورٹ میںکہا ہے کہ 18 اور 19اکتوبر کی درمیانی شب پاکستان رینجرز (سندھ) اور آئی ایس آئی سیکٹر ہیڈکوارٹرز کراچی کے افسران مزار قائدکی بے حرمتی کے واقعہ پر ممکنہ عوامی ردعمل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھے اور انھیں قانون کے مطابق کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے شدید عوامی دباؤ کا سامنا تھا۔

پولیس کے ممکنہ طور پر سست ردعمل کا اندازہ لگاتے ہوئے ان افسران نے جذباتی ردعمل کا اظہار کیا، ان افسران کو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی جی سندھ کو اغوا کیا گیا نہ ہی ان کے خلاف طاقت استعمال کی گئی۔ کورٹ آف انکوائری کی سفارشات پر ان افسران کو موجودہ ذمے داریوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مزید انکوائری کی جائے گی۔

انکوائری رپورٹ پر سیاسی حلقوں نے اپنے رد عمل کا اظہارکیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی واقعے کی تحقیقات اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کو خوش آئند قرار دیا ہے ، پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے علاقے نگر میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ میں نے آرمی چیف سے کراچی واقعے پر انکوائری کی درخواست کی تھی جس کے بعد انھوں نے انکوائری کرائی، انھوں نے کہا کہ اس طرح کے ایکشن سے اداروں کی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے، جمہوری طریقہ کار یہی ہے کہ جو بھی غلطی ہو تو اس کی تحقیقات ہوں اور متعلقہ افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے، ہم اْمید کرتے ہیں یہ سلسلہ آگے لے کر چلیں گے، پاکستان اور جمہوریت کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا پڑے گا۔

پی ڈی ایم نے تحقیقاتی رپورٹ کو جمہوری قوتوں کی فتح قرار دیا، ترجمان پی ڈی ایم میاں افتخار حسین نے کہا کہ سندھ انکوائری رپورٹ کو نتیجہ خیز بنانے کا ہم نے مطالبہ کیا تھا اور یہ صائب بات ہے کہ اس ضمن میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ رپورٹ پبلک ہونی چاہیے تھی، وہ اس کی حمایت میں دلائل دے رہے تھے کہ مکمل حقائق کے سامنے نہ آنے سے ابہام رہے گا، یہی بات خواجہ آصف نے بھی ایک ٹی وی ٹاک میں کہی۔ ادھر سندھ حکومت کے وزیر تیمور تالپور کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی رپورٹ کا انتظار ہے، رینجرز اور آئی ایس آئی کے خلاف ایکشن ہو سکتا ہے تو پولیس کے خلاف کیوں نہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی واقعہ میں قائد اعظم کے مزار کی بے حرمتی کا معاملہ پیچھے چلا گیا، ان کا کہنا تھا کہ مزار قائد کا ایک تقدس اور اس کی ایک مسلمہ علامتی حیثیت بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ بلاول بھٹو نے کراچی واقعہ کی انکوائری رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے، بلاول بھٹو کے مطالبہ پر آرمی چیف کی اس کارروائی کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔ (ن) لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے ، یہ ان کا حق ہے، انھوں نے اس واقعہ پر پی ٹی، آئی حکومت کے وزراء اور وزیراعٖظم کے بیانات پر تنقید بھی کی ۔

وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ کراچی واقعہ کی انکوائری سے مطمئن ہیں اس کو سراہتے ہیں، آئی جی سندھ نے بہت مدبرانہ طریقے سے اس مسئلہ کو خوش اسلوبی سے نمٹایا تھا، کیپٹن (ر) صفدر نے مزار قائد پر جو کیا وہ مناسب نہ تھا، مزار قائد کے اندر ہلڑبازی نہیں کرنی چاہیے تھی، چیئرمین بلاول بھٹو کے مطالبہ پر انکوائری کروانے پر آرمی چیف کا انھوں نے شکریہ ادا کیا، کور کمانڈر فائیو کور اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں انھوں نے فائنڈنگز بھیجیں جس پر ایکشن ہوا، ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی واقعہ کے ذمے دار پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور غیر ذمے دار وفاقی وزراء ہیں، وفاقی حکومت اور وزراء کی نادانیوں کی وجہ سے یہ سب ہوا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق منصفانہ فیصلہ سے آرمی چیف اور ادارے کا وقار بلند ہوا ہے،  فوج نے صورت حال کی مناسبت ، حساسیت اور نزاکت کے پیش نظر مسئلہ کا سنجیدہ حل نکالا اور بہت سی قیاس آرائیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیا، سیاسی حلقوں کے مطابق کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی تحقیقات پر فوج کے کردار کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پولرائزیشن کے موجودہ مشکل سیاسی ماحول میں کراچی انکوائری کا مکمل ہونا اور سیاسی افق پر اس کی پذیرائی ایک صائب عمل ہے، ملکی سیاست میں سیاسی معاملات پر تحقیقاتی رپورٹوں کا جو حشر ہوا ہے۔

اس سے قوم اور سیاستدان بخوبی واقف ہیں، ہزاروں سرکاری رپورٹیں طاق نسیاں ہوچکیں، اندوہ ناک واقعات کی رپورٹیں منظر عام پر نہیں لائی جا سکیں، تاریخ اس ضمن میں خاموش ہے، مگر کراچی انکوائری رپورٹ نے جمود توڑ دیا اور حقائق سے عوام کو آگاہ کرنے کی ایک اہم ذمے داری کے حوالے سے قومی ادارے نے اپنا فرض احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو سے بات کرنے کے بعد آرمی چیف نے انکوائری کا بر وقت حکم دیا اور رپورٹ تاخیر کے بغیر مکمل کر کے پیش کر دی گئی۔کراچی انکوائری رپورٹ کے سامنے آنے پر سیاست دانوں اور عوام کا یہ گلہ بھی ہمیشہ کے لیے رفع ہوگیا کہ تحقیقاتی رپورٹیں تو ہوتی ہی چھپانے کے لیے ہیں۔ اس متنازعہ چیپٹرکو بھی بڑی دور اندیشی سے بند کر دیا گیا۔اپنا موقف بیان کرنا اور اسے عوام تک پہنچانا سیاستدانوں کا بنیادی حق ہے،لیکن اس حق کے استعمال میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور کسی بھی ایسی حرکت سے اجتناب برتنا چاہیے جس سے ان کی سیاست پر حرف آئے اور دوسروں کو اعتراض کرنے کا موقع ملے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدان اپنی سیاسی مہم کے دوران جوش خطابت میں یا مخالف سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بعض اوقات احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور ایسے الفاظ ادا کر دیتے ہیں جس پر انھیں بعدازاں تنقید یا ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں میں تنظیم سازی کا نہ ہونا اور سیاسی کارکنوں کا تربیت یافتہ نہ ہونا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اہم عہدے دار بھی سیاسی تربیت سے عاری نظر آتے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت اور سیاستدانوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہی رویہ ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں میں تربیت کا معیار ہو اور نچلے درجے سے سیاسی قیادت اوپر آئے تو شاید حالات میں تبدیلی آ جائے۔ گلگت بلتستان کی الیکشن مہم ہی کو دیکھ لیں‘ مختلف پارٹیوں کے لیڈروں نے مخالفین کے بارے میں جس لب و لہجے میں تقریریں کی ہیں‘ انھیں تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے برعکس تمام تر خرابیوں کے باوجود اہم سرکاری اداروں میں تربیت کا بھی ایک نظام ہے اور کام کرنے کے بھی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ اس لیے ہماری سیاسی قیادت کو سرکاری اداروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی اور سیاسی بالغ نظری کو سامنے رکھ کر خود احتسابی کا عمل اختیار کرنا چاہیے۔

اگر کوئی سیاسی جماعت حقیقی معنوں میں جمہوری کہلانے کیخواہش مند ہے تو پھر اسے اپنے اندر بھی اپنا سخت قسم کا احتسابی نظام بنانا چاہیے۔ اپنی تنظیمیں قائم کریں ‘سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا اہتمام کریں جہاں پارٹی کی صف اول کی قیادت اپنے کارکنوں کو آگاہ کریں کہ ان کے پاس ملک کی ترقی کے لیے کیا پروگرام اور منشور ہے تاکہ کارکن کسی ایک لیڈر کے محض پیروکار بننے کی بجائے اپنی پارٹی اور اس کے منشور کو اہمیت دے کر کام کریں۔ جب تک سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کریں گی الزامات کی سیاست کبھی ختم نہیں ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔