کسان رہنما

زبیر رحمٰن  جمعرات 12 نومبر 2020
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی قطعی اکثریت کسانوں کی ہے اور پیداوار کا 60 فیصد زرعی پیداوار ہے۔ کپاس، گندم، گنا اور دھان ہماری بڑی پیداوار ہے۔ اسی لیے اسے زرعی ملک کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں کسانوں کی کئی تنظیمیں ہیں۔ جن میں پاکستان کسان اتحاد، پختونخوا کسان اتحاد، پاکستان کسان بورڈ، سندھ ہاری کمیٹی، ہاری حق دار کمیٹی، عوامی ہاری تحریک، بلوچستان بزگر کمیٹی وغیرہ۔ ہمارے ملک کا معاشی دار و مدار ٹیکسٹائل، گارمنٹ اور ہوزری پر ہے۔ یہ سب ملیں، کارخانے کپاس کی پیداوار پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ آج سے برسوں قبل پاکستان میں بڑی بڑی کسان تحریکیں چلی ہیں اور اپنے مطالبات بھی منوائے ہیں۔

جیساکہ سندھ میں ہاری الاٹی تحریک، پختونخوا میں چارسدہ کسان تحریک، بلوچستان میں فیڈر بزگر تحریک، پنجاب کے آٹھ اضلاع میں تقریباً سال بھر چلنے والی کامیاب تحریک اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ گزشتہ سال پنجاب اور سندھ میں آلو، گنا اور گندم کے کاشت کاروں کی کامیاب اور ناکامیاب تحریکیں چلیں۔

ابھی حال ہی میں گنے اور گندم کاشت کرنے والے کسانوں کی تحریک پاکستان کسان اتحاد اور پاکستان کسان بورڈ کی رہنمائی میں چل رہی ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر لاہور اور اسلام آباد میں مظاہرے ہوئے۔ بجائے کسانوں سے مذاکرات کرنے کے ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، واٹرکینن استعمال کیا گیا اور سیکڑوں کسانوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کیا گیا اور مظاہرے میں کسان اتحاد وہاڑی کے خزانچی ملک اشفاق جاں بحق ہوگئے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی جانب سے کسان اپنے مطالبات کے لیے لاہور میں 4 نومبر کو مظاہرہ کر رہے تھے۔

کئی برس قبل انجمن مزارعین پنجاب کی جانب سے اسی طرح کے ایک مظاہرے میں تین کسان رہنما جان سے جاتے رہے۔ اشفاق لنگڑیال کو  اسپتال لے جایا گیا، وہاں وہ جان کی بازی ہار گئے۔ شہید اشفاق کی ایک بیٹی ہے جو دسویں جماعت کی طلبہ ہے۔ مرحوم نے اپنی بیوی اور بیٹی کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ملک صاحب وہاڑی سے کسانوں کا جلوس لے کر لاہور روانہ ہونے سے قبل اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں سے یہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ میں واپسی میں تمہارے لیے تحفے لاؤں گا۔ ملک اشفاق لنگڑیال کا تعلق ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے ہے۔

جلوس روانہ ہونے سے قبل انھوں نے بیان دیا تھا کہ اب اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہم چھوٹے درجے کے کسانوں کا گزارا مشکل ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے جنرل سیکریٹری ملک ذوالفقار اعوان کے مطابق ملک اشفاق نے مظاہرے کے دوران تین چار بار کسانوں سے خطاب کیا تھا۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ان سے گندم 1400 روپے فی من خریدا گیا اور بازار میں 22سے 24 سو روپے من کیونکر فروخت ہوا۔ اگر 1400 روپے من گندم خریدا گیا تو آٹا40 روپے کلو ہوتا ہے اور اسے عوام کو 50/60 روپے سے زیادہ فی کلو نہیں بیچنا چاہیے۔ اسی طرح گنا اگر کسانوں سے 200 روپے من خریدا گیا تو چینی 55 روپے سے 110 روپے فی کلو کیسے ہو گئی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ گنا کسانوں سے 220 روپے فی من خریدا گیا، تو پھر چینی 60 روپے کلو سے زیادہ نہیں بکنی چاہیے۔ ایک طرف کسانوں سے گندم اور گنا سستا خریدا جا رہا ہے اور آٹا اور چینی مہنگے داموں میں عوام کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ یعنی کسان اور عوام دونوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

حکومت نے کہا کہ ملک اشفاق کو حرکت قلب میں خلل پڑنے سے انھیں اسپتال لے جایا گیا اور وہاں ان کا انتقال ہوا۔ شبلی فراز جنھوں نے اشفاق ملک کی شہادت پر کہا ہے کہ میں اس واقعہ پر ناخوش ہوں۔دائیں بازو کی دو پارٹیوں نے برملا مذمت کی ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے وہ ہیں (ق) لیگ اور (ن) لیگ۔ بائیں بازو کی تو تمام تنظیموں نے مذمت کی ہے جن میں فاروق طارق پیش پیش نظر آئے۔ گزشتہ برس اسی قسم کی جھڑپیں کسانوں اور پولیس کے مابین ہوئی تھیں جس میں برابری پارٹی کے رہنما جواد احمد نے بیچ میں شامل ہوکر معاہدہ کروایا تھا مگر حکومت اس معاہدے سے بعد میں مکر گئی تھی۔

اب تو جواد احمد ’’کورونا‘‘ کی تنہائی میں ہیں۔ اشفاق لنگڑیال کی شہادت پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، اسٹیٹ بینک ڈیموکریٹک ورکر یونین، ہوم بیس وومن ورکرز فیڈریشن، پی ٹی یو ڈی سی کے ناصر منصور، لیاقت ساہی، زہرہ اکبر خان اور جنت حسین نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ راقم سے ملک اشفاق کے کئی برسوں کے روابط ہیں۔ انھوں نے راقم کو کسانوں کے مسائل پر مواد بھیجا تھا اور اس مواد کو بنیاد بنا کر مضمون بھی لکھا تھا۔

کسان رہنماؤں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اگر گندم اور گنے کی قیمتوں میں حکومت اضافہ نہیں کرتی تو وہ بھارتی حکومت کی طرح مشرقی پنجاب میں جو کسانوں کو رعایتیں دی ہیں وہی پاکستانی کسانوں کو بھی دی جائیں۔ جیساکہ بیج اور کھاد میں رعایت، بجلی اور پانی کی مفت فراہمی وغیرہ وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ کھاد، بجلی، ادویات اور بیج اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ انھیں ان قیمتوں میں خرید کر موجودہ بھاؤ میں گندم اور گنا بیچ کر کسان زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کسانوں کو سبسڈیز دی جاتی تھیں۔ جب کہ ہمارے ہاں سبسڈیز شوگر مل مالکان، گندم کے تاجروں اور کپاس کے بیوپاریوں کو دی جاتی ہیں۔

چینی کے بحران پر حال ہی میں عدالت کے ذریعے رپورٹ آئی ہے کہ چینی کے بحران میں کون کون شریک ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ کسانوں اور عوام کا خون نچوڑ کر ارب پتی شوگر مل مالکان کھرب پتی بننے پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کارروائی کرتے ہیں۔ ویسے تو اس ملک میں ابتدا سے ہی مخلص اور ایماندار لوگ جو عوام کی خدمت کے لیے آگے بڑھے انھیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو 1960میں، نذیر عباسی کو  1983 میں، پھر بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔

کسانوں کی تحریک میں مائی بختاور، چارسدہ کسان تحریک میں کسانوں کو، پٹ فیڈر بزگر (کسان) تحریک میں پانچ کسان، پنجاب میں کسان تحریک میں انجمن مزارعین پنجاب کے تین رہنماؤں کو اور پھر اب پاکستان کسان اتحاد وہاڑی کے فنانس سیکریٹری ملک اشفاق لنگڑیال کو شہید کر دیا گیا۔ یہ شہادتیں آمریت میں ہوئیں، سول حکومت میں انھیں اپنا حق مانگنے پر شہید کیا گیا۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ شہدا کا خون ایک دن رنگ لائے گا اور امداد باہمی کا آزاد سماج قائم ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔