گلگت بلتستان، عوام اور بے رحم سیاست

ضیا الرحمٰن ضیا  جمعرات 12 نومبر 2020
ان سب سیاستدانوں کا ایک مشترکہ مقصد ’ووٹ کا حصول‘ انہیں وہاں لے گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ان سب سیاستدانوں کا ایک مشترکہ مقصد ’ووٹ کا حصول‘ انہیں وہاں لے گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہماری تاریک سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین عوام کو صرف اس وقت نظر آتے ہیں جب انہیں عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب عوام کو ان کی ضرورت ہوتی ہے تب تو وہ اپنے محلات میں سو رہے ہوتے ہیں۔ عوام کی چیخ و پکار تک انہیں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن جیسے ہی انہیں عوام کی دوبارہ ضرورت پڑتی ہے تو پھر باہر نکل آتے ہیں اور خوشامدیں شروع کردیتے ہیں۔

عام طور پر سیاسی رہنماؤں کو عوام کی دو مواقعوں پر ضرورت پڑتی ہے۔ ایک اس وقت جب انتخابات قریب ہوں تو انہیں انتخابات میں کامیابی اور عہدے کے حصول کےلیے عوام کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ عوام کے قریب آجاتے ہیں اور عوام کو سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب سیاستدانوں کو عدالتوں کی طرف سے نوٹس مل رہے ہوتے ہیں اور احتساب کے ادارے ان کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہوتے ہیں تو انہیں عوام یاد آجاتے ہیں اور وہ ان کے در پر جاکر بھیک مانگنے لگتے ہیں، ان کی تعریفیں کرتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہماری گرفتاری ہو جائے تو یہ لوگ ہمارے لیے کم از کم نعرے تو لگاتے رہیں اور اس طرح ہم خود کو عوام کے مقبول لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ ان دو مواقعوں کے علاوہ سیاستدان ہمیں کبھی نظر نہیں آتے۔

حالیہ دنوں گلگت بلتستان کا انتخابی میدان سجنے والا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی کامیابی کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ جگہ جگہ جلسے منعقد ہورہے ہیں اور سیاسی قائدین ان جلسوں سے خطاب کرکے حسب روایت عوام کو بے وقوف بنانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ عوامی اجتماعات منعقد کرکے اپنے کارنامے گنوائے جارہے ہیں۔ جو کام نہیں بھی کیے وہ بھی اپنے کھاتے میں ڈال کر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اور جو کام کیے ہیں وہ بھی تو عوام کے پیسے سے ہی کیے ہیں، ان کا بھی عوام پر احسان جتا رہے ہیں، جیسے انہوں نے اپنی جیب سے کرائے ہوں۔ بلکہ ان میں یقیناً کرپشن بھی کرتے ہیں۔ انہیں تو عوام کا احسان ماننا چاہیے جو انہیں پوچھتے نہیں ہیں اور انہی کے نعرے لگاتے ہیں۔

تمام جماعتوں کے رہنما گلگت بلتستان کا رخ کر رہے ہیں اور عوام کے سامنے اپنی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں جبکہ دوسری جماعتوں کو کرپٹ اور نااہل ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہر ایک یہ باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ اس سے زیادہ ایماندار کوئی نہیں۔ جیسے ملک کو ان کی ہی ضرورت ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسری جماعت آگئی تو تباہی مچ جائے۔ اس نکتے پر تقریباً تمام جماعتوں کا بیانیہ ایک ہی ہے کہ ہر ایک اپنی تعریفیں کرتا ہے اور دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے۔ اپنی حکومت بنانے کےلیے پرعزم ہے اور عوام کو سبز باغ دکھا کر بے وقوف بنانے کی خوب کوشش کر رہا ہے۔

یہ سارے سیاسی بہروپیے وہاں جمع ہوجاتے ہیں جہاں انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کی ثقافت کے مطابق کبھی وہاں کی ٹوپی سر پر رکھ کر جلسے میں پہنچ جاتے ہیں تو کبھی کوئی اور چیز اپنے اوپر سجانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو اس سے قبل ان علاقوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں، نہ ہی وہاں کے مسائل پر کبھی سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ طویل دور حکومت کے دوران بھی کبھی ان علاقوں کے حالات بہتر کرنے کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں تو یہ سب وہاں کا رخ کرلیتے ہیں اور عوام سے ووٹ بٹورنے کےلیے ہر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی تقاریر جھوٹ سے بھرپور ہوتی ہیں اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتی ہیں۔

یہ سیاست دان انتخابات کے دنوں میں انتخابی علاقے میں ایسے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جیسے ان کے آباء و اجداد کی جائیدادیں وہاں ہوں۔ حالانکہ ان میں سے اکثر کا دور دور سے ان علاقوں سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی انہیں وہاں کے باشندوں سے کوئی ہمدردی ہے۔ بلکہ ان سب کا ایک مشترکہ مقصد ’ووٹ کا حصول‘ انہیں وہاں لے گیا ہے۔ اور یقین جانیے انتخابات کے بعد کیا جیتنے والے اور کیا ہارنے والے، کوئی بھی آئندہ پانچ سال تک وہاں دکھائی نہیں دے گا۔ بس انتخابات تک ہی ان کی ہمدردیاں اور پیار و محبت ہے، اس کے بعد سب اپنے اپنے محلات میں جا گھسیں گے اور پانچ سال تک عوام کو نظر نہیں آئیں گے۔ ابھی تو یہ عوام پر قربان جا رہے ہیں لیکن پھر عوام کی مشکلات و مصائب میں بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ یہ تو شکر ہے کہ انتخابات پانچ سال بعد ہوتے ہیں تو یہ ہر پانچ سال بعد عوام کی منت سماجت پر مجبور ہوتے ہیں، اگر اسمبلی کا دورانیہ زیادہ طویل ہوتا تو پھر نہ جانے عوام کا کیا حال ہوتا؟ میں تو کہتا ہوں یہ دورانیہ کم کر کے دو یا تین سال کردینا چاہیے تاکہ ان سیاست دانوں کو ہر دو، تین سال بعد عوام کی یاد ستانے لگے اور یہ عوام کے پاس جاکر ووٹوں کے بہانے ہی سہی ان کے مسائل سن لیں۔

عوام کو چاہیے کہ خود بھی اپنے اندر کچھ شعور پیدا کریں اور کوئی کچھ بھی کہے ان کی باتوں میں نہ آئیں بلکہ ان کا ماضی دیکھیں کہ گزشتہ پانچ سال انہوں نے آپ کے ساتھ کتنی ہمدردری کی؟ کیا وہ گزشتہ پانچ سال کے دوران بھی اسی طرح آپ کے ساتھ ہمدردی رکھتے رہے؟ کیا وہ اسی طرح آپ کے علاقوں کے دورے کرتے تھے اور آپ کے مسائل سنتے تھے؟ جو اس طرح کرتا تھا اس کا تو ووٹ لینے کا حق بنتا ہے لیکن جو پانچ سال بعد بہروپیا بن کر آپ کے ووٹوں پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرے تو اس کے جلسے میں جاکر اس کا حوصلہ بھی بلند نہ کریں اور انہیں ووٹ بھی نہ دیں۔ کسی کی باتوں میں آنے کے بجائے خود ہی ان کی کارکردگی کا جائزہ لیجئے اور اگر آپ کو وہ اطمینان بخش لگتی ہیں تو ووٹ دیجئے، ورنہ اپنے اندر سے ہی کسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو جو کچھ خوف خدا رکھتا ہو، خود ہی الیکشن کےلیے نامزد کیجئے اور اسے ووٹ دیجئے۔ وہ آپ کے مسائل کو اچھی طرح سمجھے گا اور انہیں سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔