وہ قرض جو استعمال نہیں ہوئے

سید امجد حسین بخاری  جمعـء 13 نومبر 2020
حکومت قرض پر قرض لینے کے باوجود اسے استعمال کیوں نہیں کررہی؟ (فوٹو: فائل)

حکومت قرض پر قرض لینے کے باوجود اسے استعمال کیوں نہیں کررہی؟ (فوٹو: فائل)

’’کسی بھی ملک کی معیشت کےلیے قرض زہر قاتل ہوتے ہیں۔ قرض دینے والے ممالک اور ادارے اپنی پالیسیاں مقروض ملک پر مسلط کرتے ہیں، معیشت کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے‘‘۔

یہ الفاظ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بطور چیئرمین تحریک انصاف اپنی بیشتر تقاریر میں تسلسل کے ساتھ دہرائے۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی وزیراعظم نے آئی ایم ایف سمیت کئی بین الاقوامی اداروں سے تاریخی قرض لیا۔ ماضی میں جس قرض کو بنیاد بناکر اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، ملکی معیشت کےلیے وہی قرض ضروری ہوگیا۔ ماضی کی حکومتوں نے تو ان قرضوں کے ساتھ کئی منصوبے مکمل کیے، مگر موجودہ حکومت کے ڈھائی سال میں قرض کی رقم تو بڑھتی گئی مگر کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔

عام پاکستانی بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ریکارڈ قرضے تو لیے ہیں مگر ان کے اثرات عوام تک کیوں منتقل نہیں کیے؟ اس کا آسان جواب قومی رابطہ کمیٹی برائے غیر ملکی فنڈڈ منصوبہ جات کی ایک حالیہ رپورٹ میں دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی اداروں اور ممالک سے لیے گئے قرضہ جات میں سے 89 فیصد قرضے بالکل استعمال ہی نہیں کیے۔ غیر ملکی قرضوں کے درست استعمال نہ ہونے کے باعث جہاں پاکستان پر عالمی اداروں کا دباؤ بڑھ رہا ہے، وہیں آئی ایم ایف نے اپنی قرض کی اگلی قسط تاحال جاری نہیں کی۔

دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان بھی اپنی سماجی اور معاشی ترقی کےلیے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان عالمی اداروں سے دو اقسام کے قرض حاصل کرتا ہے۔ پہلی قسم کے قرض کو ’پروگرام لون‘ جبکہ دوسری قسم کا قرض ’پراجیکٹ لون‘ کہلاتا ہے۔ پروگرام لون بڑے ترقیاتی منصوبہ جات اور معاشی اصلاحات کےلیے حاصل کیا جاتا ہے۔ جبکہ پراجیکٹ لون ایسے مخصوص منصوبوں کےلیے لیا جاتا ہے جن کی تکمیل ملکی وسائل سے ناممکن ہو۔ لیکن یہ قرضے اس وقت تک سودمند ہوتے ہیں جب تک ان کا موثر استعمال نہیں کیا جاتا۔ بصورت دیگر یہ منصوبے مالیاتی خسارے کا باعث بن جاتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان کو بین الاقوامی اداروں کی جانب سے قرض ٹیکس نظام کو فعال بنانے اور توانائی کے شعبے میں بہتری کےلیے فراہم کیے گئے۔ پاکستان نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بجلی کے منصوبے شروع کیے۔ پاکستان نے ایشین ڈیولپمنٹ بینک، ورلڈ بینک، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک، جاپان، فرانس، جرمنی اور امریکا کے مالی تعاون سے بجلی کے شعبے کے ترقیاتی منصوبوں کےلیے قرض لیا۔ رابطہ کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر ملکی معاونت سے چلنے والے بجلی کے زیادہ تر منصوبے سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں غیر ملکی فنڈز کی ادائیگی روک دی گئی ہے۔

پاکستان نے توانائی کے شعبے میں 14 منصوبوں کےلیے عالمی اداروں سے قرض لیا، لیکن ان 14 میں سے 8 منصوبے ملکی معیشت کےلیے مسئلہ بن گئے ہیں، بلکہ اکثر منصوبے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ ان منصوبوں کےلیے غیر ملکی اداروں اور قرض دہندگان کے ذریعے مجموعی 34 کروڑ 20 لاکھ ڈالر فنڈز حاصل ہونے تھے، تاہم متعلقہ حکام کی جانب سے سست پیشرفت کی وجہ سے 33 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم فراہم نہیں کی جاسکی۔ ان منصوبوں کےلیے ادائیگی تقریباً 0.2 فیصد رہی ہے لیکن پاکستان منصوبے میں تاخیر پر تقریباً 02 فیصد ادا کررہا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کو ادائیگی میں توازن کےلیے غیر ملکی فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ فنڈز کے درست استعمال نہ ہونے کے باعث عالمی برادری کے درمیان ہماری ساکھ متاثر ہورہی ہے۔

اب بات کرتے ہیں بجلی کے دیگر بچ جانے والے چھ منصوبوں کی۔ رپورٹ میں 88 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی لاگت کے ساتھ غیر ملکی فنڈڈ ان منصوبوں کو اطمینان بخش قرار دیا گیا ہے، حالانکہ ان کےلیے مجموعی طور پر 12 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی فراہمی ہوئی تھی اور تقریباً 74 کروڑ 20 لاکھ ڈالر باقی تھے۔ 8 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے غیر ملکی فنڈز کے دو منصوبوں کو جزوی طور پر اطمینان بخش بتایا گیا۔ ان منصوبوں کےلیے ادائیگیوں کی مالیت 4 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہے اور 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر باقی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس منصوبے کےلیے کس نے کتنا پیسہ دیا؟ یہ پیسہ کہاں استعمال ہونا تھا؟ اس پیسے کو استعمال کیوں نہیں کیا جاسکا؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بین الاقوامی قرضوں کا اصل محور اور مسائل کی بنیادی جڑ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیج کمپنی یعنی این ٹی ڈی سی ہے۔ ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے کےلیے 21 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مختص ہوئے، یعنی کل قرض کے 63 فیصد۔ لیکن کمپنی انہیں استعمال کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے اکثر منصوبوں میں 18 سے 20 ماہ کی تاخیر ہے، جبکہ ترسیلی نظام کی بہتری کےلیے 02 اہم منصوبوں کی تکمیل میں 40 سے 60 ماہ کی تاخیر ہے۔ وفاقی حکومت کے زیر اہتمام بجلی کے ترسیلی نظام کی بہتری کےلیے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے 17 کروڑ ڈالر کی لاگت سے پانچ منصوبے شروع کیے گئے۔ لیکن یہ منصوبے بھی تکمیل کےلیے سنجیدہ نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔ ان پانچ منصوبوں میں سے چار منصوبوں کو افرادی قوت، زمین کی خریداری، ٹینڈر کے اجرا سمیت اہم انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔ حکام کے مطابق ان منصوبوں پر کام بالکل بھی شروع نہیں کیا جاسکا، یعنی قوم کو ایک ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔ منصوبوں میں غیر ضروری التوا نہ صرف منصوبے کی لاگت میں اضافے بلکہ عالمی اداروں کی جانب سے جرمانوں کا باعث بھی بن رہا ہے۔

اب ہم ترسیلی نظام کی بہتری کےلیے شروع کیے گئے اہم منصوبوں کی تفصیلات آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ سب سے اہم منصوبہ 660 میگاواٹ کا جامشورو پاور جنریشن پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے پر 688 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ 544 ملین ڈالر کی لاگت سے پاور ٹرانسمیشن انہانسمنٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنیز کےلیے ایڈوانس میٹرنگ پروگرام شروع کیا گیا۔ اس منصوبے پر 400 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ یہ تمام منصوبے بجلی کی ترسیل کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بجلی کے ضیاع کو روکنے کا بھی اہم ذریعہ ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے منصوبے تو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے، لیکن ورلڈ بینک نے بھی اپنے پروگرامز کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر پر اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں عالمی بینک کی معاونت سے ایک ارب چار کروڑ ڈالر کی لاگت سے 52 منصوبوں پر کام کا فیصلہ کیا گیا۔ عالمی بینک نے وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے منصوبوں کےلیے 60 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ جبکہ ورلڈ بینک 10 کروڑ 90 لاکھ پنجاب، 10 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سندھ، 40 لاکھ ڈالر خیبرپختونخوا اور 20 لاکھ ڈالر بلوچستان حکومت کو فراہم کررہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام تمام منصوبے التوا کا شکار ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے منصوبوں کے بارے میں بھی یکساں ٹرینڈ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت قرض پر قرض لینے کے باوجود اسے استعمال کیوں نہیں کررہی؟ گردشی قرضوں میں کمی کے دعوؤں کے باوجود مسلسل اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ کیا حکومتی نااہلی کا بوجھ ایک بار پھر عوام پر ڈالا جائے گا؟ ماضی میں حکومت نے ہمیشہ قرضوں کا بوجھ عوام پر ہی ڈالا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا قرض جو عوام پر استعمال ہی نہیں ہوا تو عوام اس کا بوجھ کیوں برداشت کرے؟ کیا حکومت نااہل افسران اور افراد کے خلاف کارروائی کرے گی جو قرضوں کا ایک بڑا حصہ استعمال کرنے سے قاصر رہے ہیں؟ ایسے درجنوں سوالات ہیں، جن کا جواب آنا لازمی ہے مگر جواب کون دے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔