اپنی خواہشات کو ضروریات مت بنائیے

راضیہ سید  ہفتہ 14 نومبر 2020
لوگ بستر مرگ پر کن عمومی باتوں پر پچھتاوا محسوس کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لوگ بستر مرگ پر کن عمومی باتوں پر پچھتاوا محسوس کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس فانی دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے لوگ کیا سوچتے ہیں اور پھر اپنی زندگی میں کی گئی کن غلطیوں پر پچھتاتے ہیں، درحقیقت یہ ایک اہم بات ہے۔ اہم اس لیے کہ ایک شخص اس دنیا سے جا تو رہا ہوتا ہے لیکن اپنے کندھوں پر پچھتاووں کی ایک گٹھڑی بھی لادے ہوئے روانہ ہوتا ہے۔ بستر مرگ پر اسے وہ تمام تشنہ خواہشات اور تمنائیں یاد آتی ہیں جو ہمیشہ کےلیے اس فرد کے سینے میں اک پھانس بن کر رہ گئیں۔ کیونکہ ان کی تکمیل ممکن نہ ہوسکی اور موت کا وقت آن پہنچا۔

لوگ بستر مرگ پر کن عمومی باتوں پر پچھتاوا محسوس کرتے ہیں، اس حوالے سے ایک آسٹریلیوی مصنفہ، موسیقار اور موٹیوویشنل اسپیکر برونی ویئر نے باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے Top five regrets of the dying۔ یہ کتاب اب بھی اپنی مقبولیت کی انتہا پر ہے۔ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مصنفہ نے بستر مرگ پر موجود تمام مریضوں کے آخری واقعات اور ناتمام تمناؤں کا احاطہ کیا ہے اور وہ ایک اسپتال میں بطور طبی عملہ کام بھی کرتی رہیں۔

قریب المرگ افراد سب سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ کاش وہ اپنے لیے زیادہ جیے ہوتے، اپنے خواب پورا کرتے اور صرف اپنے بارے میں سوچتے۔ وہ یہ ضرور سوچتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی دوسروں کو خوش کرنے میں صرف کردی اور اپنی خوشیوں کو بھلا ڈالا۔

زندگی کے آخری دنوں میں آپ یہ فکر کرنا بالکل چھوڑ دیتے ہیں کہ آپ کا بینک بیلنس کتنا ہے؟ آپ کا ترکہ کتنا بچ گیا ہے؟ یا آپ مکان بنانا چاہ رہے ہیں۔ بلکہ اس وقت صرف آپ کی سوچوں کا محور وہ افراد ہوتے ہیں جو آپ کو، آپ کی زندگی کو خوشگوار بناتے ہیں اور آپ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں۔ لہٰذا اس دنیا سے جانے والے افراد دوسری بات یہی سوچتے ہیں۔

بستر مرگ پر موجود افراد کی ہمیشہ یہ حسرت ہوتی ہے کہ کاش وہ بہت زیادہ کام نہ کرتے اور اپنی فیملی کو وقت دیتے۔ اپنے جذبات خاص طور پر مثبت جذبات کا اظہار اپنے پیاروں کےلیے کرتے۔ اپنے بچوں کو بتاتے کہ وہ انھیں کتنا پیار کرتے تھے یا بیوی کے ساتھ کتنے وفادار تھے یا والدین کے کتنے تابع دار تھے۔ یہ وہ تیسری بات ہے جس کا دکھ انھیں مرتے دم تک رلائے رکھتا ہے۔

قریبی رشتے داروں کے بعد انسان کی زندگی میں دوست بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ رشتہ رابطوں سے ہی برقرار رہتا ہے کیونکہ دوستی کے رشتے میں اخلاص شرط ہے۔ لیکن مرنے والے کو ہمیشہ یہ افسوس رہتا ہے کہ اس نے کاروبار یا نوکری کی بے تحاشا مصروفیات کے دوران دوستوں سے کوئی رابطہ نہ کیا، ان کا حال احوال دریافت تک نہ کیا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہورہا ہے تو اس کے دل میں یہ خلش باقی رہ گئی ہے۔

پانچواں اور سب سے آخری پچھتاوا یہ ہوتا ہے کہ میں اس چند روزہ زندگی میں خوش کیوں نہ رہا؟ کیوں میں نے اپنی زندگی اور خوشیوں کی ڈور دوسروں سے مشروط کردی۔ کیوں میں نامساعد حالات میں پریشان رہا اور حالات کو خود پر حاوی کرلیا۔ یہ بات اس طرح سے درست ہے کہ اکثر اوقات ہم حالات کو کنٹرول نہیں کرسکتے، البتہ خوشی، نفرت، محبت کے بارے میں بہتر ردعمل ضرور دے سکتے ہیں۔ اس لیے خوش رہنا اور جو ہمارے پاس ہے اس کےلیے ہی خوش رہنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

ان سب باتوں کے ساتھ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا ہمیں ابھی سے خیال کرنا ہے۔ ایک تو موجودہ دور میں زندہ رہیے اور لمحہ موجود کو اہمیت دیجئے۔ کسی کی محبت کو فار گرانٹڈ مت لیجئے، چاہے وہ بڑے بہن بھائی ہوں، اساتذہ، میاں بیوی، والدین یا دوست احباب، ان کے ساتھ ہمیشہ تعلقات استوار رکھیے۔

فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوں۔ کبھی یہ خیال نہ کیجئے کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ لوگ کسی کے مرنے کے بعد بھی کہتے ہیں ’آج مرا تو کل دوسرا دن‘ یعنی کسی کے چلے جانے سے اس دنیا کے کام ختم نہیں ہوں گے البتہ آپ کے اندر حسرتیں ضرور جنم لیں گی۔ اس لیے اپنی خواہشات کے حصول کےلیے کوشش کیجئے، خوش رہیے لیکن اپنی خواہشات کو ضروریات مت بنائیے۔ یہی کامیابی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔