پاک ایران تعلقات کی نئی جہت

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 نومبر 2020
اس حقیقت کوسمجھنے کے لیے ضرورت ہے کہ پاک ایران بارڈر کی جیو پولیٹیکل حساسیت دونوں ملکوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔فوٹو : پی آئی ڈی

اس حقیقت کوسمجھنے کے لیے ضرورت ہے کہ پاک ایران بارڈر کی جیو پولیٹیکل حساسیت دونوں ملکوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔فوٹو : پی آئی ڈی

پاکستان کے دورے پر آئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے وزیر اعظم عمران خان، ہم منصب شاہ محمود قریشی اورجنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں، اس دوران خطے میں امن کے لیے مشترکہ کوششوں پراتفاق کیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات بڑھانے، سلامتی اور ترقی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیاگیا۔ جواد ظریف نے متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو تقویت دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

ایرانی وزیر خارجہ پاک ایران تعلقات کے تناظر میں بہت اہم دورہ پر پاکستان آئے ہیں، انھوں نے پاکستان سے تجارتی، سیاسی، تزویراتی اور سفارتی محاذ پر اہم امور پر بڑے دور رس اثرات پر مبنی مفید اور بامقصد مذاکرات کیے، جواد ظریف ایران کے سینئر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں، اور پاک ایران تعلقات کو مستحکم کرنے میں ان کی دو طرفہ سفارتی کوششوں کو ہمیشہ سراہا گیا ہے، اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم نے ان کی آمد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا دونوں ممالک کے درمیان قریبی اور خوشگوار تعلقات ہیں تاہم باہمی فائدے کے لیے دوطرفہ تعاون کو مستحکم کرنا ہوگا۔

انھوں نے کورونا وائرس کے باعث ایران میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن اوردیگر اقدامات سے پاکستان میں وبا کو نمایاں طور پر روکا گیا۔انھوںنے دو طرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات بڑھانے سمیت خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کے اولین پھیلاؤ پر برادر ملک ایران کو شدید سماجی اور انسانی مسائل پیش آئے، وبا نے جنم تو چینی شہر ووہان میں لیا تھا لیکن اس کی تیز ترین منتقلی سے نمٹنے میں ایرانی حکومت نے بے مثال استقامت اور صحت کو لاحق خطرات کے سدباب کے لیے ان تھک محنت کی، تاہم دونوں ملکوں نے کورونا کی مشترکہ روک تھام میں صحت اور معالجاتی سطح پر اطلاعات اور طبی تجربات اور اقدامات کے لیے قریبی رابطہ رکھا جب کہ طبی شعبے نے بھی عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی روشنی میں وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو بہتر طریقے پر شئیر کیا اور باہمی تعاون و اشتراک کی قابل قدر کوشش کی۔

کورونا وائرس کی خطرناک یورش نے ایرانی عوام کے لیے شدید جانی نقصان کے اعتبار سے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں بہت زیادہ مسائل پیدا کیے، ایرانی صحت و میڈیکل عملے نے بھی عوام کے علاج معالجہ اور سماجی مسائل کے حل میں قابل قدر جدوجہد کی، اس کام میں پاکستان اور ایران کے طبی شعبے نے باہمی امداد و تعاون کے تحت کورونا کے سدباب میں معالجاتی، فنی تجربات کا تبادلہ کیا اور انفرااسٹرکچر اور دیگر انسانی معاونت کے شعبوں میں بھی ہنگامی بنیادوں پر ایک دوسرے کو وائرس کی ہولناکی سے آگاہ کیا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ دو برادر ملک ہمیشہ ہنگامی حالات میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے ہیں۔

ان دنوں دنیا پھر کورونا کی دوسری لہر سے لڑ رہی ہے، انسانی صحت کو خطرات نے محاصرے میں لے رکھا ہے، پاکستان نے اپنے طور پر مکمل لاک ڈاؤن سے گریز اور ایس او پیز پر موثر عملدرآمد سے بہتر نتائج حاصل کیے تھے مگر تازہ ترین لہر نے ثابت کیا ہے کہ ابھی نئے سرے سے اقدامات اور کوششوں اور تجربات کے شئیر کرنے کی ضرورت ہے، عوام کو پورے خطے میں بیداری اور وبا سے بچنے کی انفرادی و اجتماعی بریک تھرو کے لیے عالمی ادارہ صحت کو کام تیز کرنا ہوگا۔

گزشتہ دنوں افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ پاکستان کے دورے پر آئے، صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں، وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔

انھوں نے افغان زیر قیادت امن عمل کے لیے حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا افغان سیاسی جماعتوں کے ذریعہ سیاسی تصفیہ کیا جائے، وہاں امن پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہوگا، تاہم اہل پاکستان کو اس امر پر اطمینان ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں برادر ملک ایران نے کشمیریوں کے لیے اپنی آواز بلند کی اور افغان امن عمل کے کاز کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے صدر روحانی کے عزم کا اظہار جب کہ مسئلہ کشمیر پر مستقل حمایت کا اعادہ کیا۔

جہاں تک کشمیر اور افغان امن عمل کے لیے کوششوں کا تعلق ہے پاکستان نے امن عمل کے لیے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا، گزشتہ اجلاس میں وزرائے خارجہ نے مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ اور بعض ممالک کو راغب کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ آزادی اظہار رائے کے بہانے دین کی توہین قابل قبول نہیں۔

انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات، کوووڈ 19 کی صورتحال اور باہمی تعاون کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمود قریشی نے عالمی اور علاقائی حلقوں میں دو طرفہ تعلقات بالخصوص تجارتی، سرمایہ کاری، سیکیورٹی اور دوسرے شعبوں کو فروغ دینے کے لیے دوطرفہ صلاحیتوں کے استعمال پر زور دیا جب کہ کورونا ہلاکتوں پرافسوس کرتے ہوئے ایرانی اقدامات کی تعریف کی۔

انھوں نے افغانستان میں امن قائم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا علاقائی امن کے لیے افغانستان کی سلامتی اور استحکام ناگزیر ہے، باہمی بات چیت آگے بڑھانا موقع ہے جو افغان قائدین اور دیگر امن پسندوں کو استعمال کرنا ہوگا۔ اجلاس میں ایرانی سفیر محمد علی حسینی اور پاکستانی سفیر رحیم حیات قریشی نے بھی شرکت کی۔ قبل ازیں شاہ محمود قریشی نے ایرانی وزیر خارجہ کے اعزاز میں ظہرانہ دیا، جس میں مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پرجواد ظریف نے علامہ اقبال کیے یوم پیدائش کا کیک کاٹا اور پودا لگایا۔ دریں اثناء جواد ظریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی صورتحال بشمول افغان مفاہمتی عمل، پاک ایران سرحدی انتظام و سرحدی مارکیٹوںکے امور زیر غور آئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کہا پاک ایران تعلقات بڑھنے سے علاقائی سلامتی اور استحکام پر مثبت اثرات ہونگے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے علاقائی استحکام خصوصاً افغان امن عمل کے لیے پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا اور دونوں برادر ممالک کے مابین بہتر تعلقات کے لیے کام جاری رکھنے کا عہد کیا۔

مزید براں پاک، ایران وزرائے خارجہ کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے، جن میں کثیر الجہتی شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون اور روابط کے فروغ کو زیر بحث لایا گیا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے کہا دوطرفہ تعلقات مستحکم کرنے کے لیے باہمی رابطے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیاہے، جواد ظریف کے چوتھے دورے سے باہمی تعلقات کو بلندیوں تک پہنچانے میں مدد ملے گی، ہم افغانستان میںامن واستحکام چاہتے ہیں لہٰذا مشترکہ مقصدکے لیے کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

انھوں نے مسئلہ کشمیر پر بھرپور حمایت کرکے پاکستانی عوام کے دل جیتنے پر ایرانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ جواد ظریف نے کہا ہم نے بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے خصوصی بات چیت کی، نئے بارڈر کراسنگ اور نئی مارکیٹس کھولنے پر بھی تبادلہ خیال کیا، اس سلسلے میں پرامید ہیں۔ انھوںنے سرحدوں کے تحفظ، امیگریشن اور دہشت گردی سے نمٹنے میں تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا جب کہ غیرقانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے باڑ لگانے پر تعریف کی۔

پاک ایران بارڈر مینجمنٹ کو مزید مستحکم بنانے کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ نئی مارکیٹس کھلنے کے بعد ان عناصر کی سرگرمیوں پر قدغن لگ جائے جو اسمگلنگ، تخریب کاری اور دہشتگردی کے لیے کسی کی سر زمین استعمال نہ کرسکیں، بلاشبہ مختلف دہشتگرد گروپس مدت سے فعال ہیں، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بارڈر پر چیک پوسٹوں کو فعال کیا جائے جس سے کاروباری سرگرمیوں سے علاقہ کے عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے، مقامی پروڈکٹس کی تجارت اور عارضی بازاروں سے غریب طبقات کی معاشی ضرورتیں بھی پوری ہونگی اور بہتر اقتصادی ہم آہنگی و تعاون سے انتہا پسندی میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔

دوسری طرف ڈیزل اور اسمگلنگ کے سامان کی نقل وحمل کی حوصلہ شکنی بھی ہونی چاہیے، وہ کاروباری لوگ جو سالہا سال سے پاک ایران بارڈر سے تجارت کے ایک قابل عمل میکنزم سے منسلک ہیں انھیں شفافیت کے ساتھ اپنے کاروبار کے جاری رکھنے اور تجارتی حجم بڑھانے کا موقع ملنا چاہیے، لیکن ان عناصر پر کڑی نظر رکھنا ناگزیر ہے جن کا مطمع نظر دہشتگردی اور جو مجرمانہ وارداتوں سے دو طرفہ تعلقات میں رخنہ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اخباری اطلاع ہے کہ بارڈر ایریا میں گزشتہ دنوں باڑ کے ایک بڑے حصے کو کاٹ دیاگیا، یہ کس کی کارستانی ہوسکتی ہے، سرحدی حکام کو اس کا جلد نوٹس لے کر اس میں ملوث عناصر کو جلد گرفت میں لینا چاہیے۔

بہر کیف اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضرورت ہے کہ پاک ایران بارڈر کی جیو پولیٹیکل حساسیت دونوں ملکوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، ادھر امریکی انتخاب میں جوبائیڈن کی کامیابی کے بعد ایرانی میڈیا نے بھی نئے عالمی سیناریو کے ابھرنے کا امکان ظاہر کیا ہے، ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا کہنا ہے صورتحال میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہیں تاہم ایران نے عندیہ دیا ہے کہ ایران امریکا ایٹمی معاہدہ کی بحالی سے حالات بدل بھی سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔