اشرافیہ اور غریب طبقہ !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 13 نومبر 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

میری پیدائش ایک گاؤں میں ہوئی ہے، بچپن بھی اپنے اور اردگرد کے دیہاتوں کی گلیوں میں گزرا، اب بھی کبھی کبھی آوارہ گردی کرنے کے لیے اپنے گاؤں یا کسی بھی گاؤں میں چلا جاتا ہوں، کئی دیہات کو دیکھ کر مجھ پرحیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

ایک ایسی ہی بستی دیکھی، پوری بستی میں ایک بھی باتھ روم نہ تھا۔جب کہ آج کل تو پوش ایریاز میں باتھ رومز پر بے تحاشا دولت لٹائی جاتی ہے۔ دولت مند طبقہ نئے گھرکی تعمیر کے دوران باتھ رومز پر اس قدر توجہ دیتے ہیں جیسے حجلہ خاص یہی ہو! مہنگی ٹائیلزکا فرش! دیواریں دیدہ زیب ! ٹب، کموڈ، بیسن اعلیٰ سے اعلیٰ، مہنگے سے مہنگے۔

خیر بستی کی طرف واپس چلتے ہیں، پوری بستی میں ایک باتھ روم بھی نہیں! سوچنے لگا، لوگ آخر یہاں کیسے رہ رہے ہیں! گھروں کے درمیان کچی پگڈنڈیاں نما راستے اس قدر تنگ کہ بس چھوڑ ذرا بڑی کار بھی گزر ہی نہ سکتی تھی! سنگ مر مر کی دیواریں تھیں نہ خالص دیار کی لکڑی کے دروازے کھڑکیاں، نہ روشندان ! شہ نشینیں  نہ محراب! ملبوسات لٹکانے کی الماریاں بھی نہ تھیں! کسی ایک گھر میں بھی ایئر کنڈیشنر لگا ہوا نہ نظر آیا اور تو اور چھت والے عام برقی پنکھے بھی نہیں تھے۔ اس عجیب و غریب بستی کی تنگ کچی پگڈنڈی نما گلیوںمیں پھرتے ہوئے مجھے اپنے شاہ خرچ حکمرانوں کے اثاثوں کا خیال آیا۔جو ابھی گزشتہ روز ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہوئے ہیں۔

جس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان میں 10 غیر منقولہ جائیدادیں ہیں۔ وزیر اعظم کے پاس زمان پارک لاہور میں 7 کنال کا وراثت میں ملا گھر ہے جس کی تعمیر پر4 کروڑ 53 لاکھ روپے اخراجات آئے۔ عمران خان کو بنی گالہ میں 300 کنال کا گھر بطور تحفہ ملا ، عمران خان کے پاس 1 کروڑ 99 لاکھ روپے کیش ہے اور 2 لاکھ روپے مالیت کی چار بکریاں ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے اثاثوں کی مالیت 24 کروڑ 74 لاکھ روپے ہے۔ ان کے پاس پاکستان میں جائیداد کی مالیت 1کروڑ 47لاکھ روپے ہے، ان کی لندن میں دو جائیدادوں کی مالیت 13کروڑ 78 لاکھ روپے ہے۔

(حالانکہ ان کے کئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں اس سے زیادہ رقوم  ہوں گیں) ۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے اثاثوں کی مالیت 1 ارب 58 کروڑ روپے ہے۔بلاول بھٹو کی پاکستان میں 19 غیر منقولہ پراپرٹیز ہیں۔ان کے پاس دبئی میں تحفہ اور وراثت میں ملی دو پراپرٹیاں ہیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری کے اثاثوں کی مالیت 67 کروڑ ، 68 لاکھ روپے ہے۔

ان کے پاس پاکستان میں 21 غیر منقولہ جائیدادیں ہیں۔ ( عجیب بات یہ ہے کہ 32 سالہ بیٹے کے اثاثے زیادہ اور باپ کے کم ہیں)، خیر وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی بیرون ملک 51 کروڑ روپے مالیت کی 5، پاکستان میں کروڑوں روپے مالیت کی 3 جائیدادیں ہیں۔وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کی پاکستان میں 4 کروڑ ، 18 لاکھ روپے مالیت کی 7جائیدادیں ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کی پاکستان میں 5 جائیدادیں ہیں۔

ان کی اہلیہ کے پاس 76 تولہ سونا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے اثاثوں کی مالیت 11 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ اسد عمر 66 کروڑ روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ مراد سعید کے پاس 31 لاکھ روپے اور 15 تولہ سونا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 24 کروڑ روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔

وفاقی وزیر حماد اظہر 36کروڑ اور ان کی اہلیہ 28 کروڑ سے زائد مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔نور عالم خان کے اثاثوں کی مالیت 3 ارب 20 کروڑ روپے ہے، وفاقی وزیر پرویز خٹک نے ساس کو ڈھائی کروڑ روپے قرض واپس کرنا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے الیکشن کمیشن میں چھ کروڑ روپے مالیت کے اثاثے ظاہر کیے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی 10 جائیدادوں کی مالیت ساڑھے  3کروڑ روپے ہے۔

ان اراکین کے علاوہ بھی تمام اراکین اسمبلی کے اثاثے الیکشن کمیشن نے ظاہر کیے ہیں، ظاہر کیے گئے اثاثوں اور ’’حقیقی اثاثوں‘‘ میں فرق ضرور ہوگا ہے، کیونکہ غیرمنقولہ جائیدادوں کی کرنٹ مارکیٹ ویلیو ظاہر نہیں کی جاتی اور 90 فیصد اراکین  اثاثوں میں اس قدر غریب دکھائی دے رہے ہیں کہ انھیں دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر فخر ہو رہا ہے، کیوں کہ شاید میرے اثاثے ان سے زائد ہوں۔

ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں جب کبھی اس طرح کی خرید و فروخت کی جاتی ہے تو اس خرید و فروخت میں اگرچہ فریقین پوری قیمت ادا کرتے ہیں اور پوری قیمت وصول کرتے ہیں مگر جب خرید و فروخت کا اندراج کرایا جاتا ہے تو کاغذات میں حقیقی قیمت کے بجائے اندازاً اور انتہائی کم قیمت کا اندراج کیا جاتا ہے اور یہ کاغذاتی قیمت ہی اس کی مالیت تسلیم کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص اگر بیس لاکھ کی اراضی خریدتا ہے تو وہ اس کی قیمت کو کاغذات میں (یا رجسٹری کے دوران) چار یا پانچ لاکھ درج کرے گا۔

یہی اس کی مالیت تسلیم کی جائے گی اور اگر کل وہ اس اثاثہ کو ظاہر کرے گا تو یہی اس اثاثہ کی سرکاری مالیت ہو گی۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ اول اثاثہ جات کی مجموعی مالیت کم ہو اور کسی تنقید و تعریض سے بچا جا سکے اور دوم اس لیے کہ ٹیکس بھی اسی کاغذاتی مالیت پر عائد ہو گا، جو ظاہر ہے حقیقی مالیت کے ٹیکس سے کئی گنا کم ہو گا۔

بہرکیف ان اثاثوں کا خیال دماغ سے جھٹک کر نکالا اور تنگ گزرگاہوں پر چھوٹے چھوٹے مکانوں کے درمیان چلتا رہا، کہیں کہیں درخت لگے تھے۔ پوری بستی میں پانی کی بہم رسانی کا انتظام نہیں نظر آ رہا تھا، کوئی واٹر ٹینک کہیں نہ تھا۔ بجلی کا ایک کھمبا، ایک بلب نہ دکھائی دیا۔ مکانوں کے درمیان خالی جگہ اول تو تھی ہی کم، جو تھی وہ جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئی تھی۔ میں حیران پریشان! آخر یہ لوگ کس طرح رہ رہے ہیں یا خدا ! مکانوں کی چھتیں اس قدر نیچی کہ چھتوں کو ایک درمیانے قد کا انسان باآسانی ہاتھ لگا سکتا ہے ۔

ایسی بستیاں پورے ملک میں ’’آباد‘‘ ہیں! ان آبادیوں میں رات دن اضافہ ہو رہا ہے، سوچ میں پڑ گیا کہ ایک طرف ہمارے ملک کی اشرافیہ ہے اور دوسری طرف 62 فیصد پاکستانی شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ حکمرانوں کے اثاثے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں! بقول خواجہ میر دردؔ

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔