مشرف کی درخواستیں خارج، غداری کیس آج سے شروع

قانون میں خصوصی عدالت کے قیام کیلیے مشاورت کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ سے ہدایات لینے کی کیا ضرورت تھی۔وکیل پرویز مشرف۔ فوٹو: فائل

قانون میں خصوصی عدالت کے قیام کیلیے مشاورت کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ سے ہدایات لینے کی کیا ضرورت تھی۔وکیل پرویز مشرف۔ فوٹو: فائل

اسلام آ باد / کراچی: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی طرف سے ان کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلیے خصوصی عدالت کی تشکیل، اس کے ججوں اور اسپیشل پراسیکیوٹر کے طورپر اکرم شیخ کی تقرری کیخلاف دائر درخواستیں مسترد کر دیں۔

دوسری جانب خصوصی عدالت پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کی سماعت آج سے شروع کرے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان نے گزشتہ روز ان درخواستوں کی سماعت کی اور دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو ایک گھنٹے بعد سنایا گیا، ایک سطر پر مشتمل فیصلے میں صرف یہی کہا گیا ہے کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں اس لیے مستردکی جاتی ہیں، فیصلے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔ قبل ازیں دلائل دیتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ آرٹیکل6کے کیس میں خصوصی عدالت کا قیام وفاقی حکومت کا اختیار ہے، حکومت نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر3 نام مانگے جو درست نہیں، قانون میں خصوصی عدالت کے قیام کیلیے مشاورت کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ سے ہدایات لینے کی کیا ضرورت تھی۔

حکومت کو صدر کی منظوری سے ججز کے تقررکا نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا مگر نوٹیفکیشن ایک سیکشن افسر کے ذریعے سے جاری کرایا گیا جو خلاف قانون ہے، اس پرکسی مجاز اتھارٹی کے دستخط نہیں، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پرویز مشرف کے معاملے میں متعصب ہیں، وہ کس طرح غیرجانبدار عدالت قائم کر سکتے تھے، جسٹس ریاض احمد خان نے کہا کہ5نام چیف جسٹس نے دیے مگر ان میں سے انتخاب تو3کا ہی کرنا تھا، انور منصور نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور وزیر اعظم میاں نواز شریف دونوں جانبدار ہیں ،خصوصی عدالت کے جج بھی جانبدار ہیں ،وہ لوگ جو براہ راست اقدام سے متاثر ہوئے ان کو جج نامزد کردیا گیا، سب سے بڑا قانونی سقم ہے کہ اتنے بڑے فیصلے میں کابینہ کی منظوری شامل نہیں، 3 نومبر کے اقدام میں آئین کو منسوخ نہیں کیاگیا، انھوں نے کہا کہ پرویزمشرف کے خلاف کارروائی کا حکم اکرم شیخ کی درخواست پر دیا گیا جو مقدمے کے پراسیکیوٹر ہیں، انھوں نے مختلف ٹی وی شوز میں پرویز مشرف کے خلاف بیانات بھی دیے، عدالت نے کہاکہ پراسیکیوٹر نے فیصلہ تو نہیں کرنا ہوتا، انور منصور نے کہا کہ پراسیکیوٹر کا کام عدالت کی معاونت کرنا ہے جبکہ اکرم شیخ بار بار کہہ رہے ہیں کہ مشرف آرٹیکل6کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

درخواستیں مسترد ہونے کے بعد اپنے ردعمل میں پرویز مشرف کے وکلانے کہاکہ وہ عدالتی حکم نامے کوچیلنج کریں گے۔ دوسری جانب جسسٹس فیصل عرب کی سربراہی میںجسٹس یاور علی اور جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل3رکنی خصوصی عدالت آج پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کی سماعت کرے گی، عدالت وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے ملحقہ نیشنل لائبریری میں قائم کی گئی ہے، اس موقع پر عمارت کے اردگرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، پرویز مشرف کے بھی عدالت کے سامنے پیش ہونے کا امکان ہے۔ ادھر پرویز مشرف نے3نومبر کا اقدام غیرآئینی قرار دینے کے31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرِثانی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

ابراہیم ستی کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہاگیا ہے کہ پرویز مشرف کا موقف سنے بغیر ہی فیصلہ سنایا گیا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، اس پر نظرثانی کی جائے۔ دریں اثنا سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پرویز مشرف کی درخواست نمٹاتے ہوئے سابق فوجی آمر کو ہدایت کی کہ وہ اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کیلیے حکومت سے رابطہ کریں، عدالت نے ان کا نام ای سی ایل میں میں شامل کرنے کی ہدایت نہیں کی، اس لیے یہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، سابق صدر کے عبوری ضمانت کیلیے رجوع کرنے پرآرڈرکیا تھا کہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرنے تک پرویز مشرف بیرون ملک نہیں جا سکتے، یہ فیصلہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرنے پر غیرموثرہوچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔