چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی نماز جنازہ ادا

ویب ڈیسک  جمعـء 13 نومبر 2020
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی حلف لیتے ہوئے ایک فائل فوٹو (فوٹو : نیوز ایجنسی)

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی حلف لیتے ہوئے ایک فائل فوٹو (فوٹو : نیوز ایجنسی)

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی نماز جنازہ ادا کردی گئی۔

نمازجنازہ پشاور میں کرنل شیر خان اسٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں وزیراعلی خیبر پختونخوا، صوبائی وزراء، کورکمانڈر پشاور، آئی جی خیبرپختونخوا، ترجمان صوبائی حکومت کامران بنگش، غلام بلور، میاں افتخار حسین نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے

نماز جنازہ میں ہائیکورٹ کے ججز سمیت وکلاء اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کورونا ایس او پیز کے تحت نمازہ جنازہ پڑھایا گیا اور شریک افراد کے درمیان تین فٹ کے فاصلے کو یقینی بنایا گیا۔

نماز جنازہ کے بعد جسٹس قیصر رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس وقار جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، وہ اپنے ذات میں ایک ادارہ تھے جن کے خلا کو پورا نہیں کیا جاسکتا، علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کی اپیل پر جسٹس وقار سیٹھ کے انتقال پر آج ملک بھر میں وکلا نے یوم سوگ منایا۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ گزشتہ روز کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے تھے۔

جسسٹس وقار سیٹھ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا۔ وہ 16 مارچ 1961 کو پیدا ہوئے۔ 1977 میں کینٹ پبلک سکول پشاور سے میٹرک کے بعد انہوں نے ہائیر سیکنڈری تعلیم ایف جی انٹر کالج فار بوائز سے حاصل کی۔

یہ خبر بھی پڑھیے: مشرف سزا سے قبل مردہ ملیں تو لاش ڈی چوک پر 3 دن لٹکائی جائے، عدالت کا تفصیلی فیصلہ

1981 میں اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی۔ ایک سال گومل یونیورسٹی میں تعلیم کے بعد 1985 میں پشاور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہ 2011 میں بینچ کے ایڈیشنل جج بنے اور پشاور ہائی کورٹ میں بینکنگ جج کے حیثیت سے فرائض سر انجام دیے اور 28 جون 2018 کو انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا حلف اٹھایا۔

جسٹس وقار سیٹھ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس پر بننے والے اسپیشل کورٹ کے سربراہ تھے۔ انہوں ںے 19 دسمبر 2019 کو جاری کیے گئے فیصلے میں صدر مشرف کے حوالے سے ریمارکس دیے تھے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، ان پر آئین پامال کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے اور وہ مجرم ہیں، لہذا پرویز مشرف کو آئین توڑنے کے پانچ جرائم پر 5 مرتبہ الگ الگ سزائے موت دی جائے، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کرکے سزائے موت پرعمل درآمد کرائیں، اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹا جائے اور تین دن تک لٹکائی جائے۔

ان ریمارکس نے قومی سطح پر توجہ حاصل کی اور تحریک انصاف کی حکومت کے وزرا کی جانب سے ان پر کڑی تنقید کی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔