عوام کی طبقاتی بے حسی

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 14 نومبر 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اشرافیہ نے عمران حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا جو طوفان اٹھا رکھا ہے اس سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہوہ لوٹی ہوئی دولت کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔ اشرافیہ کے طوفانی پروپیگنڈے کی خاص بات یہ ہے کہ عمران حکومت کو وہ سلیکٹڈ حکومت کہتی ہے۔

یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ حکومت پر وہ اپوزیشن سلیکٹڈ کا الزام لگا رہی ہے جو خود ہاری ہوئی اپوزیشن ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہماری اپوزیشن بڑے تواتر اور بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ عمران حکومت کے خلاف دن رات پروپیگنڈے میں مصروف ہے لیکن اسے اس بات کا احساس نہیں کہ یہ ہاری ہوئی اپوزیشن ہے آج وہ کروڑوں روپے خرچ کرکے عمران حکومت کے خلاف سلیکٹڈ کا جو طوفان اٹھا رہی ہے۔

میڈیا نے اس اپوزیشن کے خلاف کرپشن کا طوفان اٹھایا تھا، اس کی بازگشت اب تک سنائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح مڈل کلاسر حکومت کو نکال کر ماضی کی اس حکومت کو واپس لائے جس پر کرپشن کے الزامات ہیں۔

ہٹلر کا پروپیگنڈا ماسٹر گوئبل اس مہارت سے جھوٹ بولتا تھا کہ عوام کو اس پر سچ کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے خواہ اس کو جس شدت سے بولا جائے۔ عوام کی محنت کی کمائی کو لوٹ کر اشرافیہ نے جو اربوں کے اثاثے بنائے ہیں وہ اب میڈیا میں آ رہے ہیں۔

نیب کی کوششوں سے اربوں کے اثاثے منظر عام پر آئے ہیں اور نیب نے اسے حکومت کے حوالے کردیا ہے۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ وہ لوٹ مار کی ایک ایک پائی لٹیروں کے اکاؤنٹس سے نکالے گی۔ سرکاری تحقیقی اداروں پر عام طور پر اعتماد نہیں کیا جاتا لیکن نیب نے اشرافیہ کے خلاف جس محنت سے کوشش کرکے اربوں کے اثاثوں کا پتا چلایا ہے اس سے اشرافیہ اس قدر خوفزدہ ہے کہ نیب کو ختم کرنے کے مسلسل مطالبے کر رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے نیب کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہ کر پائی کہ نیب نے کرپشن کا ارتکاب کیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی کرپشن کبھی نہیں ہوئی جتنی پچھلے چند سالوں میں ہوئی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ ماضی کے یہ ہیروز ایک بار پھر سیاست کے میدان میں بھاری وسائل کے ساتھ اترے ہیں اور لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور عوام کو سنہرے خواب دکھا رہے ہیں۔

؎میڈیا کو ہمیشہ غیر جانبدار ہونا چاہیے لیکن میڈیا غیر جانبداری کے باوجود جانبدار بن گیا ہے کوئی بھی جماعت خواہ اس کے پاس وسائل کی کتنی ہی بھرمار ہو ملک کے ہر حصے تک نہیں پہنچ سکتی ہے، لے دے کر میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا ہی وہ ذریعہ ہے جو لیڈروں کی بات عوام تک پہنچا سکتا ہے چونکہ عام سیاسی جماعتیں اتنے وسائل کی مالک نہیں ہیں کہ وہ بذات خود یعنی براہ راست عوام تک پہنچیں لہٰذا انھیں میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے اس حوالے سے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میڈیا وہی کچھ عوام تک پہنچا سکتا ہے جو ملک میں ہو رہا ہے۔

چونکہ ایلیٹ کے پاس اتنے بھاری وسائل ہیں کہ وہ بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرکے عوام کو متاثر کرسکتی ہے اب یہ ذمے داری عوام کی ہے کہ وہ بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں کو نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ ان کے سامنے جو لیڈر تقریر کر رہا ہے وہ کس کلاس سے یعنی مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے یا ایلیٹ کلاس سے یعنی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے اشرافیہ کی پوری تاریخ عوام کی محنت کی کمائی کی لوٹ مار کی تاریخ ہے اس پر نظر ضروری ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اس لیے لوٹ مار میں اب تک کامیاب ہے کہ عوام اس حوالے سے پسماندہ ہیں وہ اشرافیہ کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے عوام اشرافیہ کو خدا کے خاص بندے سمجھتے آ رہے ہیں لمبی لمبی گاڑیاں، محافظوں کی نفری یہ ٹھاٹھ باٹھ سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے خواہ یہ اشرفیہ اندر سے کتنی ہی کرپٹ کیوں نہ ہو۔

اشرافیہ کی برتری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایسی جماعتیں موجود نہیں جو اشرافیہ کو طبقاتی طور پر بے نقاب کریں۔ ملک بھر میں اشرافیہ کی مختلف جماعتیں ہیں وہ ایک دوسرے کی سیاسی مفادات کے حوالے سے تو مخالفت کرتی ہیں لیکن طبقاتی حوالوں سے کبھی ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرتیں کیونکہ طبقاتی حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مفادات مشترک ہیں۔

اس حوالے سے دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بائیں بازو کی طاقتور جماعتیں سرے سے ہیں ہی نہیں جو نام نہاد جماعتیں ہیں وہ عوام سے کٹی ہوئی ہیں طبقاتی تضادات سے عوام کو واقف کراتی ہیں نہ طبقاتی سیاست کرتی ہیں یہ وہ وجوہات ہیں جنھوں نے عوام کو سیاسی حوالے سے اندھا بہرہ اور گونگا بنا کر رکھا ہے۔ جس کا فائدہ ہماری محترم اشرافیہ بھرپور طریقے سے اٹھا رہی ہے جو چھوٹی موٹی عوام سے کٹی ہوئی بائیں بازو کی جماعتیں ہیں یا تو وہ ایک دوسرے سے الجھنے میں اپنا سارا وقت برباد کر رہی ہیں یا یکم مئی حسن ناصر ڈے منانے میں سارا وقت گزار دیتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔