عورتوں کی قتل گاہ

جاوید قاضی  اتوار 15 نومبر 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

وہ چیختی، چلاتی رہی، اس وائرل ویڈیو میں کہ وہ اسے مار دیں گے کہ جرگے کا فیصلہ ہے۔ سانگھڑ ضلع کی رہنے والی رخسانہ شر اردو میں یہ روداد بتا رہی تھی۔ اس کی دو ماہ پہلے پسند کی شادی ہوئی تھی۔ والد اسے قتل کرنے پر تیار ہے نہ بھائی مگر وڈیرے کو اس کی موت درکار تھی اور پھر اسے کوئی بھی نہ بچا سکا۔ وہ جس گاڑی میں منتقل ہوئی تھی بس وہ گمنام مقتل کی جانب رواں ہوئی۔ اس کی یہی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ اسے کوئی بھی نہ بچا سکا، پولیس تماشا دیکھتی رہی۔

ہاں مگر ایک اے ایس آئی محمد بخش کشمور کی چار سالہ لڑکی علیشاہ کو بازیاب کرانے والا، وہ بچی جس کو بمعہ ماں اغوا کیا گیا۔ دونوں کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔ اور پھر ماں کو کہا گیا کہ ایک اور لڑکی لے کر آئو تو تمہاری علیشاہ کو چھوڑ دیں گے۔ ماں تھانے پہنچی، محمد بخش اے ایس آئی نے اس ماں کو اپنی بیٹی دے دی کہ اسے لے جائو اور کہو کہ وہ ایک لڑکی کو لے کر آئی ہے۔ پولیس خاموشی سے ان کا پیچھا کرتی ہوئی جائے وقوعہ پر پہنچ جاتی ہے اور مجرم پکڑے جاتے ہیں۔

دادو کے گرد و نواح میں دو کمسن لڑکیاں کارو کاری کی سزا کے بدلے جو ان کے بھائی کو ملی تھیں، اس کے عوض بیاہی گئی ہیں۔ یہ لڑکیاں ابھی بالغ بھی نہیں ہوئیں، اس پوری روداد میں نہ ان کو عدلیہ ملی، نہ پولیس اور نہ ایوان اقتدار۔ یہ تینوں واقعات صرف دو دن کے فرق سے سندھ میں ہوئے۔ وہ سندھ جس کے عظیم شاعر شاہ بھٹائی کی تمام داستانوں کے مرکزی کردار عورت نے نبھائے ہیں۔ سسی سے لے کر ماروی تک کہ آج بھی پچھلے ڈھائی سو سال سے لے کر اس کے آستانہ میں جب ساری رات فقیر اس کا کلام گاتے ہیں تو آدھے فقیر مرد کی آواز میں تو آدھے فقیر عورت کی آواز میں گاتے ہیں۔ آج سندھ کس طرح اجڑ گیا ہے کہ یہاں عورت فقط ایک غلام یاجانور کی مانند رہتی ہے۔

سچ کہتی تھیں نور الہدیٰ شاہ کہ ضیاء الحق کے زمانے میں جنگل ڈرامہ ڈرامہ سندھ کی ثقافت کو نیچا دکھانے کے لیے چلایا گیا تھا۔ اس کا قلم بھی غلط استعمال ہوا۔ میں نے تقریباً پینتیس سال پہلے نوابشاہ میں ایک شام منعقد کی تھی، نور الہدیٰ شاہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کہ انھوں نے جنگل ڈرامے کے ذریعے اس معاشرے کے اندر عورت کے ساتھ ہونے والے مظالم کی عکاسی کی ہے۔ میرے ساتھ پوری بائیں بازو کی سوچ ساتھ کھڑی تھی۔ نورالہدیٰ شاہ نے اس ڈرامے میں اس حقیقت کو دکھایا ہے کہ کس طرح چند طاقتور گھرانوں میں اپنی بچیوں کی شادی قرآن مجید کے ساتھ کرائی جاتی ہے اور پھر ان کے شرعی اور قانونی حصے کی جائیداد پر قبضہ کیا جاتا ہے۔

سندھ کے اخبار’’کاوش‘‘ میں چھپے نورالہدیٰ شاہ کی اس اعتراف نے ایک لمبی بحث چھیڑ دی تھی اور میں نے بھی ایک کالم لکھا تھا کہ جو بات نور الہدیٰ شاہ نے کہی تھی وہ سچ تھی مگر! آج جنرل ضیاء الحق جیسا دور اس ملک پر پھر مسلط ہے۔ ‘‘ مگر کتنا پسماندہ ہے ، کتنی کمزور ہے عورت۔ بے بسی کا یہ عالم کہ تھر کی عورتیں خودکشیاں کرتی ہیں، چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی زبردستی شادی کرا ئی جاتی ہے۔ تیرہ سال سے پیپلز پارٹی کا دور ہے مگر پھر بھی سندھ کی عورت اتنی کمزور کیوں ہے؟

موئن جودڑو میں کہتے ہیں کہ عورت کا راج تھا یا یوں کہیے وہاں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہ تھا۔ سمبارا ہے ان کی دیوی جس کی مورتی موئن جودڑو کے کھنڈرات میں سر جان مارشل کو 1922ء میں ملی تھی جوآج دلی کے میوزیم میں پڑی ہے، یہ اس آزاد عورت کا المیہ ہے جو موئن جودڑو میں رہتی تھی۔ چار ہزار سال بعد بھٹائی نے عورت کی آنکھ سے سچ کو تلاش کیا۔

بڑا جو میں دیکھن چلی تو بڑا نہ ملا کوئے

جو کھوجا من اپنا تو مجھ سا بُرا نہ کوئے

اور پھر اس دھرتی پر بینظیر بھٹو کے روپ میں ایک سورما پیدا ہوا ،پورا سندھ اس کے ساتھ چل پڑا ہے مگر گھمسان کی اسی جنگ میں وہ راولپنڈی کی گلیوں میں شہید کر دی جاتی ہے۔ اسی شہر میں جہاں اس کے والد کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا تھا۔ اور یہ بے نام جنگ اب بھی جاری ہے۔ کل بینظیر تھی، آج مریم کے نام سے ایک اور دلیر لڑکی نکل پڑی ۔ جتنی خواتین عمران خان کے جلسے میں آیا کرتی تھیں ، افسوس اس کی حکومت نے عورتوں کے حقوق کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ ایسے محافظ رکھے گئے جو اپنی ذمے داریوں کے برعکس یہ فرماتے ہیں کہ جب عورتیں اکیلی نکلیں گی تو پھر ان کا ریپ تو ہو گا۔

میرے والد نے اپنے گائوں کی بہتیری روایتوں کو توڑا مگر جب بیٹیوں کو آ گے تعلیم دلوانے کے لیے نوابشاہ میں کالج نہیں تھا تو حیدرآباد کے زبیدہ کالج کے بورڈنگ ہائوس بھیج دیا۔ میری بہنیں فہمیدہ ریاض، سلطانہ صدیقی، مہتاب راشدی کے ساتھ وہاں پڑھیں۔ میری بہنوں کی تعلیم کی بدولت ہمارے آنگن میں اجالے آ گئے۔ میری ماں اَن پڑھ تھی مگر علم کے خزینے سے بخوبی واقف تھی کہ وہ اس شخص کی زوجہ تھی جس نے سندھ کے دہقانوں کی آزادی کی جنگ کا بو جھ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ لیکن یہ جو آج کا سندھ ہے وہ عورتوں کی قتل گاہ ہے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا۔ یہ جو کلہاڑی ہے جسے اکثر دوست آزادی کا علم سمجھتے ہیں حقیقتاً کسی نہ کسی ظلم کی داستاں کی وجہ ہے۔

عورتوں کی حقوق کی جنگ، کسانوں، طلباء، صحافیوں، وکلاء، اقلیتوں کے حقوق کی جنگ، یہ در اصل جمہوریت کی بھرپور جنگ ہے، آئین کی بالادستی کی جنگ، قانون کی حکمرانی کی جنگ۔ اگر ہم میں سے کوئی عورتوں کی برابری کے حقوق جو ہمارے آئین کا آرٹیکل 25 دیتا ہے، اس پر واضح نہیں تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ جمہوری جد و جہد کا حصہ نہیں ہے۔ وہ مادر ملت فاطمہ جناح کا تسلسل نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔