ذیابیطس کی دوا ہارٹ فیل میں بھی شفا فراہم کرسکتی ہے

ویب ڈیسک  پير 16 نومبر 2020
ٹائپ ٹو ذیابیطس کی عام دوا ایمپا گلائفلوزِن ہارٹ فیل کے مریضوں کے لیے بھی بہت مفید پائی گئ ہے۔ فوٹو: فائل

ٹائپ ٹو ذیابیطس کی عام دوا ایمپا گلائفلوزِن ہارٹ فیل کے مریضوں کے لیے بھی بہت مفید پائی گئ ہے۔ فوٹو: فائل

 نیویارک: حال میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے منظور ہونے والی دوا کے متعلق ایک اور اچھی خبر آئی ہے کہ یہ ہارٹ فیل کی صورت میں نہایت مؤثر ہے بلکہ بعض صورتوں کو اس کیفیت کو دور کرکے نقصان کو الٹا بھی سکتی ہے۔ اس کے مثبت اثرات ذیابیطس کے مریض اور دل کے عام مریض دنوں میں ہی یکساں دیکھے گئے ہیں۔

ماؤنٹ سینائی ہسپتال میں واقع آئکاہن اسکول آف میڈیسن کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ جارڈیئنس کے نام سے فروخت ہونے والی  ایمپا گلائفلوزِن دوا نہ صرف دل کا رقبہ، شکل اور افعال بڑھاتی ہے بلکہ اگر مریض معالج کے مشورے سے ورزش کو بھی شامل کرلے تو اس سے معیارِ زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔ اس طرح ہارٹ فیل ہوجانے والے مریض کو بار بار ہسپتال لانے میں کمی ہوتی ہے۔

تین روز قبل امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی سائنسی نشست برائے 2020 میں اس تحقیق کا خلاصہ پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اسے امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں بھی شائع کرایا گیا ہے۔ جب دل بڑھنے لگے، اس کی کمیت بڑھتی جائے اور یہ تیز دھڑکنے کے مستقل کیفیت میں آجائے تو بعض ٹیسٹ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اس مرض میں دل اپنے افعال کی ناکامی کی جانب بڑھتا ہے اور زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔

اس تحقیق کے سربراہ کارلوس سانتوس گیلیگو ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ دوا دل کی صلاحیت بہتر کرتی ہے جسے مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا ہے۔ دوسری جانب یہ ذیابیطس سے دور مریضوں کے لیے بھی ایک بہترین نسخہ ہے۔

فی الحال اس مطالعے میں 84 افراد کو شامل کیا گیا ہے جو ہارٹ فیل کے مستقل عارضے کے شکار تھے اور ان کی کیفیت بگڑتی جارہی تھی۔ ان کے دل میں خون پھینکنے کی شرح یعنی ایجیکشن فریکشن (ای ایف) بہت کم تھی اور اس میں مزید کمی آرہی تھی۔ جب چھ ماہ تک انہیں ایمپا گلائفلوزِن دی گئی تو 80 فیصد مریضوں میں بہتری ہوئی جبکہ فرضی دوا والے (پلسیسیبو) والے مریضوں میں یہ شرح بہت کم تھی۔

بعض مریضوں کے دل نارمل بھی ہونے لگے۔ 16 فیصد مریضوں کے بائیں خانے سے خون دھکیلنے کی قوت بہتر ہوئی۔ بعض کے قلب نارمل ہونے لگے اور ان میں مائعات بھی کم ہوئے۔

تاہم یہ ابتدائی اور چھوٹا مطالعہ ہے اور اب مزید مریضوں پر اسے آزمایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔