بروقت فیصلے کرنے میں تاخیر مہنگائی میں اضافے کا سبب

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 16 نومبر 2020
2 سال کے عرصے میں آٹا اور چینی جیسی بنیادی غذائی اجناس کے نرخ دگنے ہو چکے ہیں۔ فوٹو : فائل

2 سال کے عرصے میں آٹا اور چینی جیسی بنیادی غذائی اجناس کے نرخ دگنے ہو چکے ہیں۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: مہنگائی وہ واحد ایشو ہے جس پر حکومت ، اپوزیشن اور عوام متفق ہیں کہ اس پر قابو پانا آسان نہیں۔

کنزیومیر پرائس انڈیکس (سی پی آئی ) جس سے قیمتوں میں اوسط اضافے کی پیمائش ہوتی ہے، 2018-19 میں پہلے ہی 6.8 فیصد کی بلند سطح پر تھا جو 2019-20 میں مزید بڑھ کر 10.7 فیصد کی سطح پہنچ گیا۔ یہ شرح پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے دگنی ہے۔

آٹے اور چینی کی قیمت دو سال میں دگنی ہوگئی ہے۔ روپے کی ناقدری، غیرمعمولی بارشوں، ٹڈی دل کے حملوں اور کورونا کے علاوہ حکومتی سطح پر بروقت فیصلے نہ ہونے سے ان بنیادی ضرورت کی اجناس کی قلت اور گرانی ہوئی۔

گذشتہ برس بھی کچھ یہی صورتحال تھی، اگر سبق حاصل کرلیا گیا ہوتا تو 2020 میں وہ غلطیاں نہ دہرائی جاتیں اور بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ان کی برآمد فوری روک دی جاتی تو اس قدر گرانی نہ ہوتی۔ برآمد روکنے کا فیصلہ کرنے میں کئی ماہ لگادیے گئے۔

ای سی سی کی جانب سے فیصلہ کیے جانے کے بعد کابینہ کو اس فیصلے کی توثیق کرنے میں بھی کئی ماہ لگ گئے۔ گندم کی قلت کے پیش نظر اگر حکومت نے اپریل میں درآمد کے احکامات جاری کردیے ہوتے تو 215 ڈالر فی ٹن کے ریٹ پر گندم مل جاتی جو بعدازاں 75 ڈالر کے اضافے سے خریدی گئی۔

حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ آئندہ اس نوع کی غلطیاں نہ دہرائی جاسکیں۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ ہے کہ حکومت غذائی اجناس کی خریدوفروخت میں ملوث نہ ہو۔ کیوں کہ حکومتی سطح پر فیصلے کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ اور اگر بروقت فیصلے کرلیے جائیں تو پھر چینی، آٹا، گھی، تیل، چائے اور دالوں جیسی بنیادی اشیائے خوراک کی قلت اور ذخیرہ اندوزی دیکھنے میں نہیں آتی۔

چناں چہ ان اجناس کی خریدوفروخت نجی شعبے کے حوالے کردی جائے۔ دوسری بات یہ کہ کسی جنس کی درآمد یا خرید کے لیے جگہ جگہ سے اجازت لینے کے طویل مراحل کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔