- مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر شہباز گل کو نوٹس
- کراچی سمیت سندھ بھر میں کل رات سے بارشوں کا امکان
- نینسی پلوسی کے بعد امریکی قانون سازوں کا ایک اور وفد تائیوان پہنچ گیا
- بھارت کے یوم آزادی پر مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے
- حالیہ بارشوں اور سیلاب سے لائیو اسٹاک کو شدید نقصان
- ملک میں کورونا کے مزید 2 مریض انتقال کرگئے
- کمزور حریف کا شکار، پاکستانی پیس ہتھیار تیار
- نمیبیا کے قلندرز
- وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ٹیلیفونک گفتگو، دورۂ پاکستان کی دعوت
- پب جی مفت کھیلنے کے اعلان کے بعد یومیہ 80 ہزار کھلاڑیوں کا اضافہ
- ایمازون نے 13000 پاکستانی سیلرز اکاؤنٹس معطل کردیے
- خنزیر کی جلد سے بنے قرنیہ سے 20 افراد کی بینائی بحال
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15روپے فی لیٹر تک کمی کا امکان
- معاشی مسائل کا حل اکنامک فریم ورک کی تشکیل نو میں پوشیدہ
- چڑیا گھر کا سب سے عمر رسیدہ پینگوئن لومڑی نے مار ڈالا
- پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینے کے متحمل نہیں اور نہ نقصان برداشت کرسکتے ہیں، وزیر خزانہ
- کراچی پریس کلب سے ایم کیو ایم لندن کے متعدد کارکنان گرفتار
- خیبرپختونخوا حکومت کا آج سے اسکول کھولنے کا اعلان
- پاکستان نے ملکی سطح پر تیار پہلی الیکٹرک کار پیش کردی
- راولپنڈی میں گزشتہ 24 گھنٹے کے اندر تہرے قتل کی دوسری سنگین واردات
بروقت فیصلے کرنے میں تاخیر مہنگائی میں اضافے کا سبب

2 سال کے عرصے میں آٹا اور چینی جیسی بنیادی غذائی اجناس کے نرخ دگنے ہو چکے ہیں۔ فوٹو : فائل
اسلام آباد: مہنگائی وہ واحد ایشو ہے جس پر حکومت ، اپوزیشن اور عوام متفق ہیں کہ اس پر قابو پانا آسان نہیں۔
کنزیومیر پرائس انڈیکس (سی پی آئی ) جس سے قیمتوں میں اوسط اضافے کی پیمائش ہوتی ہے، 2018-19 میں پہلے ہی 6.8 فیصد کی بلند سطح پر تھا جو 2019-20 میں مزید بڑھ کر 10.7 فیصد کی سطح پہنچ گیا۔ یہ شرح پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے دگنی ہے۔
آٹے اور چینی کی قیمت دو سال میں دگنی ہوگئی ہے۔ روپے کی ناقدری، غیرمعمولی بارشوں، ٹڈی دل کے حملوں اور کورونا کے علاوہ حکومتی سطح پر بروقت فیصلے نہ ہونے سے ان بنیادی ضرورت کی اجناس کی قلت اور گرانی ہوئی۔
گذشتہ برس بھی کچھ یہی صورتحال تھی، اگر سبق حاصل کرلیا گیا ہوتا تو 2020 میں وہ غلطیاں نہ دہرائی جاتیں اور بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ان کی برآمد فوری روک دی جاتی تو اس قدر گرانی نہ ہوتی۔ برآمد روکنے کا فیصلہ کرنے میں کئی ماہ لگادیے گئے۔
ای سی سی کی جانب سے فیصلہ کیے جانے کے بعد کابینہ کو اس فیصلے کی توثیق کرنے میں بھی کئی ماہ لگ گئے۔ گندم کی قلت کے پیش نظر اگر حکومت نے اپریل میں درآمد کے احکامات جاری کردیے ہوتے تو 215 ڈالر فی ٹن کے ریٹ پر گندم مل جاتی جو بعدازاں 75 ڈالر کے اضافے سے خریدی گئی۔
حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ آئندہ اس نوع کی غلطیاں نہ دہرائی جاسکیں۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ ہے کہ حکومت غذائی اجناس کی خریدوفروخت میں ملوث نہ ہو۔ کیوں کہ حکومتی سطح پر فیصلے کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ اور اگر بروقت فیصلے کرلیے جائیں تو پھر چینی، آٹا، گھی، تیل، چائے اور دالوں جیسی بنیادی اشیائے خوراک کی قلت اور ذخیرہ اندوزی دیکھنے میں نہیں آتی۔
چناں چہ ان اجناس کی خریدوفروخت نجی شعبے کے حوالے کردی جائے۔ دوسری بات یہ کہ کسی جنس کی درآمد یا خرید کے لیے جگہ جگہ سے اجازت لینے کے طویل مراحل کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔