صدارتی امریکی انتخابات 2020ء

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 16 نومبر 2020
 ’’امریکی صدراتی انتخابات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

 ’’امریکی صدراتی انتخابات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن نے مخالف امیدوار صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانٹے دار مقابلے کے بعد شکست دیدی اور امریکا کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے۔

جوبائیڈن جنوری 2021ء میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ سپر پاور ہونے کی حیثیت سے امریکا کے انتخابات انتہائی اہم ہوتے ہیں اور عالمی منظر نامے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’امریکی صدارتی انتخابات اور مستقبل کا عالمی منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جاوید حسین (سابق سفارتکار )

امریکی صدراتی انتخابات میں جو ڈویلپمنٹ ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوبائیڈن امریکی صدر ہوں گے اور جلد الیکٹورل کالج انہیں باضابطہ طور پر صدر منتخب کرلے گا لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پالیسی میں عالمی سطح پر، علاقائی سطح پر، ہمارے خطے میں اور پاک امریکا تعلقات میں کیا تبدیلیاں آسکتی ہے۔ جوبائیڈن کا امریکی صدر بننا بڑی ڈویلپمنٹ ہے اور اس سے عالمی منظر نامے پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوںگی۔ اتحادیوں اور مخالفین کے بارے میں امریکی پالیسی، نظریات و دیگر حوالے سے بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ چین اور امریکا ایک دوسرے کے مخالف رہیں گے مگر جوبائیڈن لڑائی جھگڑے کے بجائے مقابلے کے فضا میں آگے بڑھیں گے اور امریکا کو معاشی و دیگر حوالے سے مضبوط کرکے چین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔چین نے 1980 ء سے اب تک، تیزی سے ترقی کی۔ اس کی قوت خرید امریکا سے بہت زیادہ ہے۔ چین کی معیشت امریکا سے مضبوط ہوتی جارہی ہے لہٰذا اگر امریکا کی رفتار سست رہی تو چین بہت آگے نکل جائے گا اور 15 سے 20 برسوں میں دفاعی لحاظ سے بھی امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے جو بائیڈن اپنی توجہ امریکا کے اندرونی حالات کو بہتر کرنے پر خرچ کریں گے۔ وہ یہ بھی کوشش کریں گے کہ امریکا کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے اور ترقی کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ چین کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کیلئے امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ، فار ایسٹ ممالک اور جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرے گا اور ان ممالک کو بھی قریب لانے کی کوشش کرے گا جن کے ساتھ ٹرمپ کی وجہ سے تعلقات خراب ہوئے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ چین کو روکنے کیلئے معاشی طاقت کے ساتھ ساتھ الائنس بھی ضروری ہیں بش اور اوبامہ کے دور سے چلنے والا جاپان، آسٹریلیا، بھارت اور امریکا کا الائنس اب بھی جاری رہے گا۔ اوبامہ دور میں ایران کے ساتھ امریکا کی نیوکلیئر ڈیل ہوئی تھی ٹرمپ اس معاہدے سے نکل گئے لہٰذا اب توقع کی جارہی ہے کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کسی شکل میں بحال ہوسکتی ہے اور دوطرفہ پابندیوں میں نرمی آسکتی ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے امریکا کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی البتہ جوبائیڈن فلسطینیوں کی اشک شوئی کیلئے محض پیغام دیں گے ۔ کلنٹن سے ٹرمپ تک، گزشتہ چار ادوار میں بھارت کے حوالے سے امریکا کی ایک ہی پالیسی  جاری ہے، وہ بھارت کو چین کے خلاف ایک طاقت کے طور پر کھڑا کر رہا ہے۔ یہ پالیسی اب بھی جاری رہے گی، اس میں تبدیلی کی توقع کرنا غیر فطر ی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان امریکی پالیسی میں اہم تھا۔ افغانستان کے تناظر میں بھی ہماری اہمیت رہی ہے مگر وہ وقت گزر چکا ہے لہٰذا یہ سمجھنا کہ جوبائیڈن کے دور میں حالات یکسر بدل جائیں گے ممکن نہیں ہوگا۔ وہ پاکستان کے خلاف تو کھڑے نہیں ہونگے مگر بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کریں گے۔ سی پیک منصوبے سے ہماری سٹرٹیجک اہمیت میں ایک بار پھر مزید اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور چین کا اس بڑے انداز میں ایک دوسرے کے مزید قریب آنا دنیا کیلئے واضح پیغام ہے کہ اگر امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کم ہوئے ہیں تو ایک اور بڑی طاقت کے ساتھ ہمارے مضبوط تعلقات ہیں۔ امریکا بھی اس کو خوب سمجھتا ہے لہٰذا وہ یہ کوشش رہے گی کہ وہ پاکستان کو چین سے دور کر دے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت کو کاؤنٹر کرنے کیلئے چین ہماری لائف لائن ہے اور اس نے مشکل حالات میں ہمیں ریسکیو کیا ہے، یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے، قرضے دیے ہیں، انفراسٹرکچر بنایا ہے لہٰذا توقع ہے کہ پاکستان، سی پیک کے معاشی، تجارتی، سٹرٹیجک اور سکیورٹی پہلوؤں کو مثبت انداز سے آگے بڑھائے گا۔ امریکا کو افغانستان کے تناظر میں پاکستان کی ضرورت ہے اور وہ ہماری مدد کے بغیر وہاں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بھی امریکا کو ہماری ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا میں پاکستان نے ہمیشہ معتدل رویہ اپنایا اور کبھی انتہائی پوزیشن نہیں لی، امریکا کا اس میں مفاد ہے کہ اعتدال پسند ممالک کو فروغ دیا جائے اور انتہاپسندانہ رویے والے ممالک کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس حوالے سے بھی پاک، امریکا معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے دنیا کو معلوم ہے کہ یہ کشمیریوں کی اپنی جدوجہد ہے جو بھارتی مظالم سے تنگ آکر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیر ہمارے لیے انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔ ٹرمپ اور مودی کے مشترکہ پروگرام کے بعد بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ اس بارے میں امریکا کو اعتماد میں نہ لیا گیا۔ اگر یہ تصور کر بھی لیا جائے کہ امریکا کو معلوم نہیں تھا تو اس پر امریکا کا کوئی سخت ردعمل نہیں آیا لہٰذا اب بھی یہ توقع کرنا کہ امریکا مسئلہ کشمیر پر ہماری وجہ سے بھارت پر دباؤ ڈالے گا تو ایسا نہیں ہوگا۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار )

امریکا میں پالیسیاں لانگ ٹرم سوچ کے ساتھ اداراہ جاتی سطح پر بنائی جاتی ہیں جن میں کسی شخصیت کے آنے، جانے سے فرق نہیں پڑتاالبتہ انداز میں فرق ضرور آسکتا ہے۔ امریکا کی موجودہ پالیسی پر کام کا آغاز 80 ء کے دہائی میں ہوا جس اسے یقین ہوگیا تھا کہ اس نے سوویت یونین کو تقریباََ زیر کر لیا ہے۔امریکا نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مستقبل میں اس کا مقابلہ کس کے ساتھ ہوگا اور کونسی نئی طاقت ابھرے گی۔ سپر پاور کی خاصیت ہوتی ہے کہ جہاں اس کا مفاد ہو، وہاں وہ اپنی مرضی کے حالات پیدا کردیتی ہے اور اس کے مفادات کی نگہداشت ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ معیشت ہمیشہ سے ہی اہم رہی ہے اور یہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو استعمال ہوتا آیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام اتفاقاََ نہیں ہے، امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے ، کمزور پاکستان اس کے مفاد میں ہے تاکہ وہ افغانستان اور چین کے حوالے سے اپنے مفادات کو تحفظ دے سکے۔ امریکا کے مفادات کی خاطر جتنے افراد اس کے ہتھیاروں سے مرے ہیں،اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، اوبامہ نے مخمل کے دستانے پہن کر لوگوں کا گلا گھونٹا اور جوبائیڈن اس کا ساتھی تھا۔90 ء کی دہائی کے اوائل میں جب امریکا نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کیا تو ہم نے اسے اتنی اہمیت نہیں دی۔ اب امریکا، بھارت کے مابین جو آخری معاہدہ ہوا ہے ،ا س کے بعد بھارت، امریکا کا اسی طرح کا سٹرٹیجک پارٹنر بن گیا ہے جس طرح بہت سارے یورپی ممالک ہیں۔ اس علاقے میں امریکا کے مفادات ہیں اور وہ یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ امریکا کو یہ اندازہ تھا کہ سوویت یونین کے بعد چین ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرے گا اور اسے چیلنج کرے گا۔ چین اور روس کے آپس میں بڑے معاہدے ہوچکے ہیں،چین آئل کا بہت بڑا امپورٹر ہے لہٰذا چین اور روس کے درمیان 10 برسوں میں دو آئل پائپ لائنیں بچھائی گئی ہیں۔ جوبائیڈن کا صدر بننا ہمارے مفاد میں بھی ہے اور نقصان میں بھی، دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ا س کیلئے کتنے تیار ہیں۔ جوبائیڈن کے آنے سے اس خطے کے حوالے سے امریکا کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ چین اس خطے میں بڑی تیزی سے اوپر آیا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اب بنگلہ دیش نے چین سے درخواست کی ہے کہ ہمیں پاور ہب بنا کر دیں،ملٹری امداد دیں اور سی پیک میں شامل کریں۔برما کے ساتھ بھی 25 ارب ڈالر کی تجارت ہوچکی ہے۔ سری لنکا میں چین نے بندرگاہ بنا رکھی ہے۔ گوادر پہنچنا اس کا خواب تھا اور میرے نزدیک پاکستان نے اسے پلیٹ میں رکھ کر دے دیا ہے۔ 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اہم تو ہے مگر یہ ان کی تجارت ہے، قرضے مہنگے ہیں اور ہمیں فنانشل پیکیج کا بھی معلوم نہیں ہے۔ سی پیک منصوبہ 2015ء کا نہیں ہے بلکہ بہت پہلے سے اس کی پلاننگ جاری تھی۔ وہ اپنی ٹائم لائن کے حساب سے آیا ہے۔ اومان میں چین نیول پورٹ سٹی بنا رہا ہے جہاں بھارت اور امریکا بھی موجود ہیں۔ چین اسرائیل میں بھی موجود ہے اور وہاں ہائی ٹیک سسٹم میں اس کی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ چین تبت میں پہنچا اور بھارت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ چین کو معلوم ہے کہ اسے کیا چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں اور وہ اسی لحاظ سے خود کو مضبوط کر رہا ہے۔ امریکا کی طاقت اس کے ایٹمی ہتھیاراور نیول فورسز ہیں جبکہ چین کی طاقت اس کی زمینی فوج ہے اور اب وہ اپنی نیول فورس کو بھی طاقتور بنا رہا ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنے کیلئے  بھارت کو مضبوط کرنے کے ساتھ امریکا، پاکستان کو چین سے کاٹنے کی کوشش کرے گا، اگر پاکستان اس گیم سے نکلتا ہے تو چین کو بہت نقصان ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں سے اگر سی پیک منصوبہ نکال دیا جائے تو وہ ناکام ہوجائے گا۔ ہمارا مسئلہ ہے کہ فیٹف و دیگر معاملات میں ہمیں امریکا کی ضرورت ہے ۔ہمیں بڑی طاقتوں کی اس لڑائی میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ پاک، امریکا ملٹری تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی، امریکا ہمیشہ اچھے ملٹری تعلقات کا خواہاں رہا ہے، اب بھی وہی پالیسی جاری رہے گی۔

ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی (ماہر امور خارجہ )

بڑی طاقتیں اپنے مفادات سے باہر نہیں نکلتی اور ان کی پالیسیاں اسی کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکا جزوی طور پر اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کرے گا۔ امریکا کو ہمیشہ پاکستان کی ضرورت رہی اور یہاں اس کے مفادات گہرے رہے ہیں مگر اس کے باوجود پاک امریکا تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہاہے۔اس میں ایک بات باعث افسوس ہے کہ ہم اپنے مفادات کی درست نگرانی نہیں کرسکے اور نہ ہی امریکی مفادات سے فائدہ اٹھا سکے۔ جوبائیڈن، باراک اوبامہ کی پریزیڈنسی میں رہے ہیں۔ اوبامہ نے نرمی کے ساتھ وہی کیا جو امریکا کی پالیسی تھی لہٰذا اب بھی انہی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ امریکا پارٹنرشپ کے بجائے وقتی فائدہ اٹھاتا ہے  اور پارٹنر شپ صرف ان سے چاہتا ہے جو فری مارکیٹ اکانومی میں جڑے ہیں۔ یہ امریکا کا بنیادہ فلسفہ ہے جو معاشی معاملات سے لے کر دفاعی معاملات تک، سب ڈیل کرتا ہے۔ امریکا اپنے مفاد کے بجائے کسی اور طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ امریکا کی دوستی اور دشمنی دونوں ہی دوسرے ملک کو متاثر کرتی ہیں۔سوویت یونین کے خلاف اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے امریکا کو پاکستان کی ضرورت تھی لہٰذا اس نے خود کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر رکھا۔ جب چین نے دیکھا کہ امریکا جنگوں میں الجھ گیا ہے تو اس نے عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی اور خود کو معاشی طور پر مضبوط کیا اور ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ امریکا کی تاریخ میں کبھی اتنا بڑا معرکہ نہیں ہوا جتنا ان انتخابات میں ہوا اور اب تک کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا۔ ان انتخابات میں پہلی ترمیم کی روح نظر آئی اور لوگوں نے اقدار کو ترجیح دیتے ہوئے جوبائیڈن کو منتخب کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو منفی طور پر متاثر کیا۔ ان کی باتوں اور پالیسیوں سے مسائل پیدا ہوئے، انہوں نے امریکا کیلئے فری مارکیٹ اکانومی کے حوالے سے بھی مسائل پیدا کیے۔پاکستان اس خطے میں بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ امریکا، چین اور روس پاکستان کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ ہے جبکہ معاشی، تجارتی، تعلیمی و دیگر لحاظ سے امریکا پر ہمارا انحصار بہت زیادہ ہے، امریکا کو افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں اس کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنا ہوگا۔ امریکا میں مسلمانوں کی ایک فیصد آبادی ہے جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ الیکٹورل کالج کا کردار اہم ہوتا ہے لیکن اگر پاپولر ووٹ میں ایک فیصد مسلمانوں کے ووٹ شامل کیے جائیں تو معاملات وسیع ہوجاتے ہیں۔ جوبائیڈن کی جماعت ڈیموکریٹس نے مسلمانوں کو جگہ دی ہے اور ان کے ساتھ مسلمان نمائندے بھی حکومت میں شامل ہوئے ہیں۔ جوبائیڈن نے مسلمانوں کی خواہشات کا احترام کیا ہے اور انہیں اس کا فائدہ بھی ملا ہے۔ کملا ہیرس کا منتخب ہونا کشمیر کے حوالے سے اہم ہے، ہمیںسفارتکاری کے ذریعے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو فروغ دیکر آگے بڑھنا ہوگا اور کملا ہیرس کو اس میں کردار ادا کرنے کیلئے رضامند کرنا ہوگا۔ امریکا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے معیشت، سیاست، دفاع سمیت تمام میدان موجود ہیں، نئے امریکی صدر جوبائیڈن کو رام کیا جاسکتا ہے، اس کیلئے ہمارے سفارکاروں کو متحرک ہونا ہوگا، جوبائیڈن کی طبیعت کے مطابق نرم انداز اپنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے تھنک ٹینک، یونیورسٹیوں و دیگر لابیز کو ساتھ ملانا ہوگا تاکہ پاک امریکا تعلقات میں مزید بہتری لائی جاسکے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مثبت پیشرفت ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔