کموڈس بننا بہت مشکل ہے!

راؤ منظر حیات  پير 16 نومبر 2020
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

جمہوریت کی ابتداء روم سے ہوئی ہے۔ ہزاروں برس پہلے اُمور حکومت پر فیصلہ کن بحث صرف اور صرف سینیٹ میں ہوتی تھی۔ رومن ایمپائر دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی۔ سینیٹ میں بادشاہ اور سیاستدانوں کے درمیان طے ہونے والے معاملات کا اثر پوری دنیا پر پڑتا تھا۔

ووٹ، انسان حقوق، عورتوں کو جائیداد کا حق، ملکی وسائل خرچ کرنے کا طریقہ، یعنی ہر چیز پر طویل بحث ہوتی تھی۔ اس کے بعد مجموعی رائے عامہ کے تحت قوانین بنائے جاتے تھے۔ ریپبلک کا لفظ بھی روم ہی کی سینیٹ سے نتھی ہے۔ رومن سلطنت کیا تھی، اس کی اقتصادی اور عسکری قوت کیا تھی، تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک ماضی کی رومن ایمپائر کے پائے کا نہیں ہے۔ سینیٹ میں سیاستدان ہوتے تھے۔ ان میں سے اکثر موروثیت کی بدولت اس طاقتور پوزیشن پر براجمان تھے۔

سیاستدان، سلطنت کے امیر ترین لوگوں پر مشتمل طبقہ تھا۔ سب سے پہلے اپنے ذاتی فوائدکی طرف دیکھتے تھے۔ پھر عوامی مسائل کی طرف نگاہ جاتی تھی۔ دولت کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ بادشاہ اور ان کے درمیان اکثر کھچائو کی کیفیت رہتی تھی۔ دونوں فریق حددرجہ دولت کمانا چاہتے تھے۔ مگر دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ دونوں فریقین یعنی بادشاہ اور سیاستدان نعرہ بالکل ایک جیسا لگاتے تھے۔ کہ وہ یہ سب کچھ عوام کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں۔ عوامی بہبود کا نام، ذاتی اختیارات اور دولت کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

کموڈس روم کا بادشاہ تھا۔ جنون کی حد تک شوق تھا کہ لوگوں میں اس کی واہ واہ ہو۔ ہر طرف اس کی تعریف ہوتی رہے۔ حددرجہ شاہ خرچ اور جنون کی حد تک پروپیگنڈے کا شوقین تھا۔ اس کا والد، سلطنت کا بہترین جنرل اور فاتح تھا۔ کموڈس اپنے والد سے بالکل مختلف تھا۔ اسے جنگ ناپسند تھی۔ جرمن قبائل سے لڑتے ہوئے اس کا بہادر باپ بیمار پڑ گیا اور جنگ کے دوران فوت ہو گیا، مارکس ایرپلس نام کا یہ جری بادشاہ، اپنے بیٹے کی وہ تربیت نہ کر سکا، جس سے اس میں ایک عظیم حکمران کی خصوصیات پنپ سکیں۔

مگر یہ قدرت کا قانون ہے۔ کہ برگد کے درخت کے سائے میں تن آور درخت نہیں اُگتا۔ کموڈس میلوں ٹھیلوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ سب سے بڑا کھیل ’’کولوسیم‘‘ میں گلیڈیٹرز کی باہمی لڑائی تھی۔ اس میں ہزاروں لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوتے تھے۔ اس کھیل کے لیے خطیر رقم درکار تھی۔ پیہم جنگوں نے رومی سلطنت کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ جب یہ معاملہ سینیٹ میں بحث کے لیے پیش ہوا، تو سیاستدانوں نے کوئی نیا ٹیکس لگانے سے انکار کر دیا۔ ان کے نزدیک عوام پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے کراہ رہے تھے۔ لہٰذا کوئی بھی نیا ٹیکس بغاوت کا باعث بن سکتا تھا۔

سینیٹ کے انکار کے باوجود کموڈس کے پاس عوام کا دل لبھانے کا گیمز کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ مگر وسائل کہاں سے آئینگے۔ کموڈس، انتہائی نچلی سطح کے لوگوں سے مشاورت کرتا تھا۔ عقلمند آدمی کے پاس جانا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ ادنیٰ آدمی بہت کم رموزِ سلطنت کی باریکی کو سمجھ سکتا ہے۔ کموڈس نے ایک انوکھا فیصلہ کیا۔ گلیڈیٹرز کے کھیل کے لیے نیا ٹیکس لگا دیا گیا۔ مگر یہ عوام پر نہیں بلکہ سینیٹ کے سیاستدانوں پر تھا جو حقیقت میں سلطنت کے امیر ترین لوگ تھے۔ سینیٹ میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سینیٹرز سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی بادشاہ اتنی جرات کریگا کہ ان پر ٹیکس لگا دے۔

کموڈس کے والد نے مرتے وقت نصیحت کی تھی کہ سینیٹ کے سیاستدان، زہریلے سانپ ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی بگاڑ کی طرف نہ جانا۔ ان کی تقریریں غور سے سننا، منہ پر ان کی خوب تعریف کرنا مگر ان پر اعتماد نہ کرنا۔ کموڈس نے طاقت کے زور پر دولت مند سیاستدانوں سے ٹیکس وصول کر لیا۔ روم میں گلیڈیٹرز کی کھیلوں کے فقیدالمثال مقابلے ہوئے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ، سیاستدانوں نے انتہائی پیچیدہ سازشوں کا جال بُن ڈالا۔ کموڈس پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔

سینیٹ کے ممبران کی سازشوں کے سامنے کموڈس کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا اور پھر محلاتی سازشوں کی بدولت مارا گیا۔ اس واقعے کے سیکڑوں سال بعد بھی کسی رومن بادشاہ کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ روم کے دولت مند سیاستدانوں پر کسی قسم کا ٹیکس لگا دے۔ سینیٹ ہمیشہ سازشوں کی آماجگاہ رہی۔ سینٹ، بادشاہ اور فوج کی تکون کئی صدیاں مل جل کر حکومت کرتی رہی۔ سازش، ایک دوسرے پر بداعتمادی، دولت کا ارتکاز اور عوام کی فلاح کے کھوکھلے نعرے بالاخر دنیا کی عظیم ترین سلطنت کے ختم ہونے کا باعث بنے۔

برصغیر میں کوئی بادشاہ یا کوئی حکومت، روم کے برابر دولتمند اور طاقتور نہیں رہی۔ لہٰذا ہمارے مقامی شہنشاہ، راجہ مہاراجہ رومی حکمرانوں کے سامنے حددرجہ چھوٹے کردار نظر آتے ہیں۔ مگر ایک عنصر ایسا ہے جس میں ہمارے حکمران اور ہزاروں برس پہلے رومن سینیٹ کے ممبران بالکل ایک جیسے ہیں۔ لگتا ہے کہ رومن سینیٹ کے سیاستدان، بھیس بدل کر کسی طریقے سے پاکستان پہنچ گئے ہیں اور ہماری قسمت کے پاسبان بن چکے ہیں۔ حکمرانی کا حق چپکے سے حاصل کر لیا ہے۔ یہ حیرت انگیز یکسانیت ہے۔

دولت کا ارتکاز، اپنے آپکو قانون سے بالاتر سمجھنا، عوامی بہبود کے جھوٹے اور کھوکھلے نعرے لگانا، ذاتی سہولتوں کا انبار لگانا اور اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے انتہائی منظم اور موثر پروپیگنڈا کرنا۔ روم کی تاریخ پڑھیے۔ اس کے عنوان پر روم کا نام مٹا کر ہمارے ملک کا نام لکھ دیجیے۔ حیران رہ جائینگے کہ ہزاروں برس پہلے رومن سینیٹ میں بحث بالکل اسی طرز کی تھی جو آج ہمارے ایوانوں اور میدانوں میں رائج ہے۔ یہ مماثلت وہ بدقسمتی ہے جس پر بات کرنی کم ازکم ہمارے ہاں ممکن نہیں ہے۔

گزارشات پر بالکل یقین نہ کیجیے۔ تہترسالہ حالات پر سنجیدہ نظر ڈالیے۔ دولت اور اقتدار کی ہوس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئیگا۔ شائد، عوامی بھلائی کے نعروں میں کچھ نئی جاذبیت پیدا ہو گئی ہو۔ مگر طالبعلم کی نظروں میں شائد ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ اس لیے کہ ہم نئے نعرے بھی ترتیب نہیں دے پائے۔ اداروں کی کارکردگی سے شروع کیجیے۔ ہمارے انصاف کے ادارے کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ غریب کو اس خطے میں نہ کبھی انصاف ملا ہے اور نہ ملے گا۔ مگر گستاخی معاف۔

سیاستدانوں کی اکثریت ذاتی مالی فوائد سے آگے دیکھنا گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔ مثال دینا مناسب ہے۔ چینی کی ملوں میں منافع ہزار گنا سے زیادہ ہے۔ مگر ملوں کی اکثریت کن کی ہیں۔ سیاستدانوں کے ایک ایسے کلب کی، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف کے لوگ بلاتخصیص شامل ہیں۔ یعنی دولت کمانے میں سب لوگ ایک ہیں۔ کسی سیاسی گروہ میں کوئی فرق نہیں۔ چینی کی ملوں پر یہ بھی عرض کرونگا۔ کہ جب سیاستدانوں نے ’’کمال مفاہمت‘‘ کی پالیسی اختیارکر کے منافع بخش کارخانے لگا لیے تو نئی ملیں لگانے پر پابندی لگا دی گئی۔

یعنی اگر کوئی بھی اپنے جائز سرمایہ سے مل لگانا چاہتا ہے تو کم ازکم پنجاب میں اسے اجازت نہیں ہے۔ سندھ کے متعلق بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ وہاں نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ۔ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہا ہے اور ہوتا رہیگا۔ جب الیکشن آتا ہے تو شہداء کی قبروں پر سیاسی تجارت شروع ہو جاتی ہے۔

عوام کو مہنگے ترین داموں بجلی مہیا کی جارہی ہے۔ جنوبی ایشاء اور اردگرد کے تمام ملکوں سے مہنگی بجلی۔ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا کوئی حکمران اسے کم نہیں کر سکتا۔ بالکل کر سکتا ہے۔ مگر صرف تقریریں ہوتی ہیں اور عوام کی بہبود کے نام پر عریاں سیاست۔

کسی بھی شعبہ کو دیکھ لیجیے۔ بالکل ایک جیسی زبوں حالی ہے۔ مگر پارلیمنٹ کی بحث سنیں۔ کسی بھی وزیراعظم کے ’’پاکیزہ بیانات‘‘ میں تو سب کچھ عوام کے فائدے ہی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ تلخ بات تو یہ ہے کہ تہتر برس سے عوام سے جھوٹ بولاجا رہا ہے۔ اگر کوئی سیاستدان سچ بولنے کی جرات کرے تو اسے سازش کے تحت قتل کر دیا جاتا ہے۔ مذہب بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کوئی انسان، جرات نہیں کر سکتا کہ ایک عظیم فراڈ ہو رہا ہے۔

عوام کی نسوں سے لہوکے آخری قطرے ’’میرٹ اور انصاف‘‘ کے نام پر کشید کیے جا رہے ہیں۔ رومن سینیٹ اور ہمارے ایوانوں میں انیس بیس کا فرق بھی نہیں ہے۔ وہی اطوار، وہی چال چلن، وہی حربے، وہی چرب زبانی، وہی غیرسنجیدہ باتیں۔ ہزاروں سال پہلے کموڈس تو ہم سے ہزار درجہ بہتر تھا کہ اس نے امیر ترین طبقہ پر ٹیکس لگانے کی ہمت کی تھی۔ یہ درست ہے کہ اسے، اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ مگر یہاں تو کموڈس جیسے کام کا تو درکنار، اسطرح کی سوچ بھی موجود نہیں ہے۔ باقی رہ گئے عوام! تو وہ مسلسل بیوقوف بنتے رہیں گے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔