کورونا کو سنجیدہ کیوں لیں؟

نوید عالم  منگل 17 نومبر 2020
ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہوا تو ہم بچ جانے والے ننانوے فیصد لوگوں میں شامل ہوں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہوا تو ہم بچ جانے والے ننانوے فیصد لوگوں میں شامل ہوں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا میں مبتلا ہونے والے کو نہ الٹیاں ہوتی ہیں، نہ سر میں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں، نہ پولیو مریض کی طرح چلنا مشکل ہوتا ہے، نہ دل کے مریض کی طرح ہر وقت تھکاوٹ اور اچانک درد اٹھنے کا خطرہ، نہ بے ہوشی اور نہ ہی کینسر کی طرح جسم کا کوئی حصہ گلا سڑا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی ایسی خطرناک صورتحال جس میں مریض شدت درد و تکلیف سے مرا جارہا ہو، کچھ نہیں ہوتا۔

کورونا میں مبتلا اکثر لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کورونا کا شکار ہیں۔ جن کو ٹیسٹ سے پتہ چل جاتا ہے ان کو بیماری محسوس نہیں ہوتی۔ جن کو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ معمولی بخار اور تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، جو ہفتہ دس دن میں ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں۔ ان ہی لوگوں اور ان کے متعلقین میں سے اکثر کورونا وبا کا مذاق اڑاتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ محض ڈرامہ ہے، اس سے کوئی نہیں مرتا وغیرہ۔ یہ وہ ننانوے فیصد یا بانوے فیصد لوگ ہیں جن کو کورونا کچھ نہیں کہتا۔ لیکن اصل مسئلہ ایک فیصد سے آٹھ فیصد لوگوں کا ہے۔

کورونا سے مرنے والوں کی شرح ایک فیصد سے آٹھ فیصد تک رہی ہے، کہیں ایک سے بھی کم۔ اس کا پھیلاؤ تیز ہے۔ وبا کی صورت کم وقت میں زیادہ لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔ علاج موجود نہیں لہٰذا کورونا میں مبتلا اُن ایک یا آٹھ فیصد لوگوں کو اپنے سامنے سانس اکھڑتا دیکھ کر ایڑیاں رگڑتا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرسکتے۔

نزلہ، زکام اور کورونا فیملی کے دیگر امراض کی شرح بھی لگ بھگ ایک سے دو فیصد کے درمیان ہی ہے اور ہر سال ہزاروں لوگ اس سے مر بھی جاتے ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ وہ علاج کے عمل سے گزرتے ہیں، یقینی موت یا اذیت ناک موت کا شکار نہیں ہوتے۔ بچنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

کورونا کا معاملہ جدا ہے، تاحال کوئی ویکسین یا دوا موجود نہیں۔ مرض کو ہلکا جان کر بے احتیاط رویہ اپنانے سے فرض کیجئے 22 کروڑ میں سے چند ماہ میں ایک کروڑ لوگ اس وبا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کم سے کم شرح اموات میں ایک لاکھ لوگ اذیت ناک طریقے سے موت کہ منہ میں چلے جائیں گے۔ زیادہ شرح اموات ہوئی تو 7 سے 8 لاکھ پاکستانی دم گھٹتے ہوئے دنیا چھوڑ دیں گے۔ کیونکہ ان کے مرض پر قابو پانے کا طریقہ وجود ہی نہیں رکھتا۔

ہم میں سے کتنے لوگوں کو علم ہے کہ ہم یا ہمارے والدین، اعزہ و اقارب یا حلقہ احباب میں سے کون اس اذیت ناک موت کا شکار ہوگا، کون نہیں؟

ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہوا تو ہم بچ جانے والے ننانوے فیصد لوگوں میں شامل ہوں گے۔ لیکن ہم جن سے ملتے ہیں ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوا تو کیا ہم موت ان کی دہلیز تک پہنچانے والوں میں شامل نہیں ہوں گے؟

مزید یہ کہ ہم ظاہری جسامت دیکھ کر مدافعتی نظام کے اچھے یا برے ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا ہمارے پاس پھر سب سے اچھا انتخاب احتیاط کا ہی رہ جاتا ہے، خود بچنے کےلیے بھی اور دوسروں کو بچانے کےلیے بھی۔ ہمارا دین، دینِ اسلام، دینِ فطرت بھی ہمیں توکل سے پہلے احتیاط ہی کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے توکل پر اونٹ کھلا چھوڑنے والے کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا پہلے اونٹ کھونٹے سے باندھو، تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرو، اس کے بعد اللہ پر توکل قائم کرو۔

آئیے! سچے محبان و عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا ثبوت دیں۔ احتیاط کیجئے اور ’’سب ڈرامہ ہے‘‘ کہنے والوں کو احتیاط کرکے سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جواب دیجئے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نوید عالم

نوید عالم

بلاگر شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ہیں جبکہ سماجی کارکن، موٹی ویشنل ٹرینراور کیریئر کاؤنسلر کے طور پر سرگرم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔