وفاقی اداروں کا عدم تعاون،افغان ایران سرحد سے اسمگلنگ کے مکمل خاتمے میں بڑی رکاوٹ

رضوان آصف  منگل 17 نومبر 2020
2014 ء سے 2018 ء کے درمیان اسمگلنگ کا حجم جی ڈی پی کے تناسب سے 3.88  فیصد سے بڑھ کر11.25فیصد ہو گیا تھا۔ (فوٹو : انٹرنیٹ)

2014 ء سے 2018 ء کے درمیان اسمگلنگ کا حجم جی ڈی پی کے تناسب سے 3.88 فیصد سے بڑھ کر11.25فیصد ہو گیا تھا۔ (فوٹو : انٹرنیٹ)

 لاہور:  وزیر اعظم عمران خان کی تمام تر دلچسپی اور اقدامات کے باوجود افغان اور ایران سرحد سے ہونے والی اسمگلنگ مکمل طور پرروکی نہیں جا سکی۔

غیر ملکی ماہرین اور مقامی سرکاری حکام کی مشترکہ ریسرچ سٹڈی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متحرک بعض کالعدم دہشت گرد تنظیمیں بڑے اسمگلرز کیلیے سہولت کار کے طور پر مدد فراہم کرتی ہیں جبکہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان اسمگلنگ کے مالیاتی حجم کے تناسب سے آگے ہے جہاں2014 ء سے 2018 ء کے درمیان اسمگلنگ کا حجم جی ڈی پی کے تناسب سے 3.88  فیصد سے بڑھ کر11.25فیصد ہو گیا تھا تاہم موجودہ دور حکومت میں اس میں قدرے کمی آئی ہے۔

اسمگل شدہ سامان کی اندرون ملک ترسیل کو روکنے کیلیے کسٹمز اینٹی اسمگلنگ کو وفاقی محکموں کی جانب سے عدم تعاون، افرادی اور وسائل کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ اختیارات میں کمی کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود رواں مالی برس کے ابتدائی چار ماہ میں کسٹم نے 40 ارب روپے مالیت کی اسمگل شدہ اشیاء قبضے میں لی ہیں جو گزشتہ مالی سالکے مقابلے سو فیصد زائد ریکوری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔