مشترکہ خاندانی نظام: ماضی، حال اور مستقبل

جاوید نذیر  بدھ 18 نومبر 2020
ہمارے ملک میں مشترکہ خاندان کے نظام کو ترجیح دی جاتی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے ملک میں مشترکہ خاندان کے نظام کو ترجیح دی جاتی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ اپنی خاندانی زندگی کو دیکھیں تو مشاہدہ کریں گے کہ ماضی میں گھر کے بزرگ اور بڑے تربیت کےلیے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ بعض اوقات ایک دو تھپڑ بھی لگادیا کرتے تھے، لیکن مجال ہے کہ بچہ کبھی اپنے والدین اور بزرگوں کی تعظیم میں کمی آنے دیتا، بلکہ وہ محبت بتدریج بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ گھر میں ایک ہی وقت ہانڈی بنتی تھی اور باقی سارا دن بچے ہوئے سالن اور گھر میں بنائے گئے اچار سے ہی کھانا کھاتے تھے، لیکن کبھی بھی کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑے اور کبھی کسی نے کھانے کے معاملے میں مطالبہ نہیں کیا کہ میں نے یہ کھانا اور یہ نہیں کھانا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں گھر کا ہر فرد سبزیوں اور دالوں کو شوق سے کھاتا تھا۔ منرل واٹر اور فلٹر شدہ پانی کا تصور بھی نہیں تھا، لوگ گھروں میں موجود نل سے پانی پیتے تھے اور اس کے باوجود بیماریوں سے محفوظ تھے۔

آپ ملاحظہ کیجیے جیسے جیسے معاشرہ مادی ترقی کرتا گیا تو خاندانی زندگی کی شکل ہی تبدیل ہوگئی۔ سبزیوں اور دالوں کی جگہ برگر، شوارما اور فاسٹ فوڈ نے لے لی۔ رشتے داروں سے براہ راست ملنے کے بجائے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جانے لگا۔ کتابوں کی جگہ فیس بک نے لے لی۔ نوجوانوں نے میدان میں کھیلنے کے بجائے وڈیوگیمز اور ٹیب میں دلچسپی لینا شروع کردی۔ لوگ کچے مکانوں سے پکے مکانوں میں رہنے لگے۔ سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل اور گاڑی نے لے لی۔ جب یہ تمام تبدیلیاں آئیں تو پھر معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی آئی اور اب ایسا لگتا ہے کہ آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہمارے رویوں میں لالچ کا عنصر زیادہ ہے۔ اس لالچ میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا استحصال، کمزوروں اور مزدوروں کا استحصال معمول سمجھا جانے لگا۔ ایسا لگتا ہے کہ ترقی گویا دوسروں کا استحصال کرکے ہی ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں مشترکہ خاندان کے نظام کو ترجیح دی جاتی تھی۔ تمام بیٹے (شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ) ایک ہی گھر میں ماں باپ کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔ لیکن ترقی کے نام پر خاندان میں جو تبدیلی دیکھتے ہیں اس میں ہمیں یہ جڑت نظر نہیں آتی۔ آپ دیکھیے کہ ماضی میں گھروں میں لڑائی جھگڑے کی صورت میں گھر کے بڑے ان کے درمیان صلح کرواتے تھے اور روٹھ کر میکے جانے والی بہو کو روکنے کےلیے ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی۔ طلاق کی شرح نمایاں طور پر کم تھی۔ لوگ پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مثالی اور مضبوط تھا۔ معاشرے میں جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی تھی لیکن اب دیکھیے کہ معاشرے میں مادی ترقی کے بعد خاندانوں میں وہ تمام افراد جو ایک ساتھ رہنا پسند کرتے تھے، آہستہ آہستہ علیحدہ ہوتے چلے گئے۔ معاشرے میں ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا، لوگ محلوں سے نکل کر سوسائٹیوں میں رہنے چلے گئے اور الگ الگ گھروں میں رہنا شروع کردیا۔

مشترکہ فیملی نظام میں ماں باپ کے ساتھ ہر دن ملنا ہوتا تھا جو علیحدہ رہنے سے دنوں، ہفتوں اور پھر مہینوں پر چلا گیا اور وجہ بتائی گئی کہ مصروفیات بہت ہیں۔ آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ مشترکہ فیملی نظام میں بہت زیادہ مصروف ہونے کے باوجود بھی والدین کےلیے وقت نکالا جاتا تھا، جو علیحدہ ہونے پر پہلے کم ہوا اور پھر بالکل موقوف ہوگیا۔ آپ علیحدہ رہنے والے خاندانوں کا مشاہدہ کیجئے، ان کے درمیان جہاں ہم آہنگی بھی بہت ہوتی ہے لیکن معمولی بات پر اختلاف بھی شدید نوعیت کے ہوتے ہیں، جن کا انجام علیحدگی یا طلاق پر منتج ہوتا ہے۔

اب مشترکہ اور علیحدہ خاندانی نظام میں بچوں کا تربیت کا جائزہ لیجئے تو اس میں بھی آپ کو ماضی اور حال میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ماضی میں بچوں کو ددھیال اور ننھیال کے تمام رشتوں سے روشناس کرایا جاتا تھا اور بچے ان کا احترام کرتے تھے۔ علیحدہ خاندان میں رہنے سے بچے اکیلے رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنے اکثر رشتے داروں کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا اور اس لیے ان کا اپنے ہی رشتے داروں سے وہ تعلق نہیں بن پاتا جو ایک مضبوط خاندان کےلیے ضروری ہے۔

آپ ماضی کے اسکولوں کی طرف نظر دوڑائیے تو ادھر بھی آپ کو تعلیمی نظام اور اساتذہ کرام مشترکہ خاندانی نظام کا پرچار کرتے ہی نظر آتے ہیں اور اس وقت کے نصاب میں آپ کو متعدد ابواب میں مشترکہ خاندانی نظام کو حمایت ہی ملے گی۔ بچوں کو اس کے بارے میں سکھایا جاتا تھا اور بچوں کو والدین کا احترام، بزرگوں کے احترام کے بارے میں تاکید کی جاتی تھی۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت ’’مار نہیں پیار‘‘ جیسی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود سرکاری اسکولوں سے وسیع القلب اور اعلیٰ اذہان کے لوگ ابھرے جنہوں نے ملکی ترقی میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں۔

اب اگر موجودہ دور کی صورتحال کو دیکھا جائے تو لگتا ہے معاشرے میں خاندانوں کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں۔ مادی ترقی نے لوگوں کو آسائشیں تو فراہم کی ہیں لیکن جو خاندان کی اقدار بدل چکی ہیں۔ بچے اپنے موبائل اور ٹیب کو ہی اپنا رشتے دار سمجھتے ہیں، ان کے پاس اپنے خاندان کے افراد کےلیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر ہی وہ اپنے دوست اور رشتے بناتے اور سگے رشتوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دوستوں کے ساتھ ہی وہ اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہی بغیر تحقیق کے مختلف ملکی اداروں، مشہور شخصیات حتیٰ کہ پاک فوج کے بارے میں بھی تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ’’ویورز‘‘ ان تمام پوسٹس کو لائیک کرتے ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے اس پوسٹ کو شیئر کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر وقت افواہوں اور سنسنی سے بھرپور خبروں کا بازار گرم رہتا ہے۔

خاندانی زندگی کو تباہ کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ نوجوانوں کا کھیلوں کے میدانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ایک تعلق بنتا تھا لیکن ترقی کے اس دور میں نوجوانوں کے سوشل میڈیا سے جڑنے سے کھیل کے میدان تقریباً خالی ہو چکے ہیں۔ نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ اپنے مسائل شیئر نہیں کرتے۔ اس لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہے۔ چونکہ وہ شارٹ کٹ کے ذریعے ترقی کرنا چاہتے ہیں اور آگے بڑھنے کی اس دوڑ میں وہ برے بھلے کی تمیز بھول چکے ہیں۔

میرا کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ علیحدہ رہنے اور علیحدہ خاندان بنانے میں کوئی حرج ہے، لیکن اگر آپ علیحدہ رہ کر اپنے خاندان اور اپنے والدین کے درمیان بیلنس رکھ سکتے ہیں تو پھر آپ ضرور علیحدہ ہوجائیں۔ لیکن اگر آپ علیحدہ ہوکر اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے تعلق ختم کرلیں گے تو پھر یہ خاندانی زندگی کو ختم کردینے کے مترادف ہوگا۔ آپ ایک اور بات ملاحظہ کیجئے کہ جو لوگ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے ساتھ حادثات بھی کم ہوتے ہیں۔ وجہ یہ کہ خاندان میں ایک دوسرے کی حفاظت کرنے والے تمام افراد ہوتے ہیں اور جو جوڑے اکیلے رہتے ہیں، بیشتر واقعات و حادثات انہی کے ساتھ ہوتے ہیں۔

خاندان کے رشتے خدا کی طرف سے ودیعت کیے گئے ہیں، لہٰذا ان کا احترام اور ان کے ساتھ رفاقت اور ان کے ساتھ تعلق کو خدا بھی پسند کرتا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو اپنے خاندان کے بزرگوں اور والدین کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمیں ہر سطح پر اس بحث کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ علیحدہ رہنے کے جو Disadvantages ہیں ان کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ والدین کے احترام کو مذہبی حوالے سے بھی بتانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں دل دہلا دینے والی خبر نے یقیناً ہر ایک آنکھ اشک بار کی کہ دو سگے بھائیوں نے اپنی والدہ کو قتل کردیا۔ صرف یہی ایک خبر نہیں، بلکہ آپ روزانہ کے اخبارات دیکھیں تو ہمیں اکثر و بیشتر واقعات اسی قسم کے ملتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی اپنی سطح پر نوجوانوں کو خاندان کی اہمیت کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مستقبل میں ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دے سکیں جو صحیح معنوں میں مشترکہ خاندانوں کا معاشرہ ہو اور جہاں خاندان کے ہر فرد کو عزت و احترام ملے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔