اقبالؒ کے بارے میں فیضؔ کے خیالات

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 18 نومبر 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

اقبال اکیڈیمی کے زیرِاہتمام چَھپنے والی ’اقبالیات کے سوسال‘ نامی کتاب میں ایک مضمون فیضؔ صاحب کا بھی ہے۔ اس میں وہ علامہّ اقبالؒ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ہمارے قومی ذہن اور زندگی پر اقبالؔ کے کلام سے کیا اثرات مرتّب ہوئے اور انھوں نے کیا نقش ہمارے ذہن پر چھوڑے۔ اس میں کچھ باتیں تو ایسی ہیں جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

مثلاً ان کا پہلا اثر تو یہی ہے کہ ہماری ذہنی زندگی میں جس کا قسم کا تلاطم ان کے افکار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے وہ غالباً ان سے پہلے یا ان کے بعدکسی واحد مصنف، ادیب یا کسی واحد مفکّر نے پیدا نہیں کیا‘‘۔ ’’یہ صحیح ہے کہ سر سیّد کی تحریک اس ملک میں موجود تھی لیکن اقبالؒکے افکار کی نسبت اس تحریک کا دائرہ محدود تھا۔ اُس کا تعلق محض ہندوستان کے مسلمانوں سے تھا۔ لیکن اقبالؔ کے افکار کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں ، دنیا بھر کے مسلمانوں، عام انسانوں بلکہ جملہ موجودات اور غیر موجودات سب سے تھا۔

کلامِ اقبالؔ کا دوسرا اثر یہ مرتّب ہوا کہ اقبالؔ نے ہمارے قومی کاروبار میں خواہ وہ سیاست ہو، اخلاقیات ہو، مذہب ہو، خواہ کوئی اور قومی زندگی کا شعبہ ہو، اس میںفکر اور تدبّر کا ایک ایسا عنصر شامل کیا جو  پہلے موجود نہیں تھا۔ پہلے بہت سی باتیں جو محض وہم و گمان کے بَل پر لوگ سلوگنز(slogans)کے طورپر استعمال کیا کرتے تھے، اقبالؔ نے ان کے سوچنے ، غور کرنے، مشاہدہ، مطالعہ ، تجزیہ ، استنباط کرنے کا، اور اس سارے ذہنی پروسیسز (Processes) سے گزر جانے کا ڈھب سکھایا۔ صرف خواص کو نہیں بلکہ عوام کو بھی ان باتوں سے آشنا کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے بعد ہر سیاسی مفکّر، معلّم اور خطیب کے یہاں اقبالؔ کے کلام کے توسّط سے ایک قسم کا تفکر اور سوچنے کا عنصر خود بخود ذہن میں شامل ہو جاتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اقبالؒ نے لوگوں کے ذہن کو ان اثرات سے ایک حد تک آزاد کرنے میں مدد دی جو غلامی کے سبب پیدا ہو گئے تھے ۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے موضوع کو جیسے کہ شروع میں سبھی لوگ کرتے ہیں، اپنے ذاتی تجربات تک محدد رکھا۔ اس کے بعد انھوں نے پورے ہندوستان یعنی قوم کو متوجّہ کیا۔ اس کے بعدان کا وہ دَور آتا ہے جب وہ اپنی قوم کے مختلف تجربات یا مختلف موضوعات کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد کا دور، ان کے پین اسلام ازم Pan Islamism) (کا دور تھا۔ جب کہ وہ دنیا بھر کے اہل اِسلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

ان کا آخری دور وہ ہے جہاں وہ انسانیت اور جملہ کائنات کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کرتے ہیں اور یہ موضوع وہ ہے جو نہ صرف ان کے ملک سے وابستہ ہے بلکہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ بھی اس میں شامل ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی آفاتی طریقے سے اس موضوع پر نہیں سوچا۔ آفاقی طریقے سے سوچنے کا ڈھب اور اِس کو سوچنے کی ترغیب ہمارے ہاں اقبالؔ نے پیدا کی اور آخری چیز جو میں سمجھتاہوں کہ صرف انھوں نے تخلیق کی، وہ شعر اور ادب کے لیے ایک نئے مقام کا تعیّن تھا۔

یہ مقام اس سے پہلے ہمارے ہاں نہ شعر کو حاصل تھا، نہ ادب کو ۔ ہمارے ہاں اس سے پہلے شعر یا توتفریح  یا ایک غنائیہ سی چیز سمجھی جاتی تھی یا زیادہ سے زیادہ محض ایک اصلاحی چیز سمجھی جاتی تھی، یہ بھی حالیؔ کے بعد۔ شعر میں فکر اور حکمت ، شعر میں وہ عظمتیں جن کو ہم شاعروں سے نہیں فلاسفروں سے متعلق کرتے ہیں، وہ محض اقبالؔ کی وجہ سے ہمارے یہاں پیدا ہوئی ہیں۔ اقبالؔ جس زمانے میں لکھ رہے تھے، یہی زمانہ مغرب میں آرٹ فار آرٹ سیک کے عروج کا تھا۔ ادب برائے ادب کو لوگ بہت بَڑھیا چیز سمجھتے تھے۔

اس لیے کہ مغرب سے یہ نظریہّ آیا تھا اور اُدھر سے جو نظریہّ آتا ہے، وہ ہمارے ہاں بیس برس بعد پہنچتا ہے، جب تک وہاں پرانا ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن جب یہاں پہنچتا ہے تو کچھ دن اس کا بہت چرچا رہتا ہے۔ یہی اقبال ؒ کے کلام کے عروج کا زمانہ تھا۔ انھوں نے بتایاکہ شعر اور ادب بہت ہی سنجیدہ اور سیریس چیز ہے ، یہ کوئی تفریح اور محض لوگوں کی دل لگی کا سامان نہیں ہے۔

ہماری ذہنی زندگی میں یہ تصّور پہلی دفعہ اقبالؔ نے پیدا کیا ۔ اب رہے اقبالؔ کے افکار یا اُن کے تصورّات، ان میں سے قوم نے کیا چیز قبول کی اور کس طرح قبول کی اس کے بارے میں اختلافات ہیں۔ وہ اس وجہ سے ہیں کہ ہر بڑے ادیب اور مفکّرکی عظمت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس کی تحریک یک معنی یا یک پہلو نہیں ہوتی بلکہ اس کے کئی پہلو ،کئی گوشے ،کئی تہیں ہوتی ہیں اور ان میں سے کون آدمی کس حد تک استفادہ کرتا ہے وہ اس کی بصیرت اور ظرف پر منحصر ہے۔ چنانچہ اقبالؒ کے کلام کے بارے میں بھی یہی ہے کہ قریب قریب ہر مکتبِ فکر ان کو سند کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جیساکہ وہ خود کہہ گئے ہیں:

زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

اقبالؒ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی جو تعلیم ہے، اس میں تفکّر وتدّبر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر اس پہ آپ عمل نہیں کرتے تو پھر آپ جامد پتھر کی طرح ہو جائیں گے۔ ان کے نزدیک جمادات اور نباتات اور ملّا یہ تینوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح جب وہ عقل کی برائی کرتے ہیں تو میرا استد لال نہیں ہے، نہ عقل سے شعور مراد ہے۔

وہ تو اس وقت ایک خاص مسلک یا خاص رویّے کی بات کرتے ہیں جو  بالکل ایک مجرّد چیز ہے، یعنی وہ عقل جس کا تعلق انسانیت کی بہتری یا انسانیت کی فلاح سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلّق محض اپنے نفس کی تسکین یا دنیا کے مال ومتاع سمیٹنے یا دنیا پہ مادی تسلّط حاصل کرنے سے ہے۔

عقل کا یہ مسلک مغربی سرمایہ داری کا مسلک ہے، جس کا تعلق محض اپنے جلب ِ زر سے ہے، محض اپنے نفس کی تسکین سے ہے، اگر اس میں عشق یعنی انسانیت کی لگن شامل نہیں ہے تو وہ مہلک اور مضر ہے۔ لیکن اگر اس میں عشق کی لگن شامل ہے تو پھر وہ ایک مفید چیز ہے۔ ایک مثبت چیز ہے۔ چنانچہ اقبالؒ کا عشق عقلیّت کامنافی نہیں ہے وہ تو صرف ان خود غرضانہ (Abstract) چیزوں کا تضاد ہے، جن کا انسانیت کی بہتری سے تعلق نہ ہو‘‘۔ فیضؔ صاحب مزید لکھتے ہیں،

’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے عمل اور جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے اور اس لیے ہر کسی کو اپنی زندگی کے لیے جہاں تک بھی اس کا ہاتھ پہنچتا ہے وہاں تک پہنچانا چاہیے ۔ چنانچہ دیکھ لیجیے انھوں نے میسولینی کی بھی تعریف کی ہے۔

یہ بات بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ اس میں وہی تضاد ہے جو  میں پہلے بیان کر چکا ہوں، کہ اگر دو انسانوں کا تصادم ہوتا ہے یا دو قوموں میں تصادم ہوتا ہے، تو پھر ظاہر سے اس کا فیصلہ جو ہے وہ تو کسی نظریے کی بنا پر، عقیدے کی بنا پر، کسی اصول کی بنا پر ہو گا۔ وہ اصول اقبالؒ نے بیان کر دیے ہیں۔ وہ اصول ہیں، آزادی اور عدل وانصاف اور انسانیت کی تکمیل کی کوشش جو چیزیں ان کے منافی ہیں وہ ان کی رائے میں غلط ہیں‘‘ ۔

فیضؔ صاحب کہتے ہیں ’’ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبالؔ کی مثال ہمارے ہاں ایک ندی یا ایک نہر کی سی نہیں ہے جو ایک ہی سمت میں جا رہی ہو بلکہ ان کی مثال تو سمندر کی سی ہے جو چاروں طرف محیط ہے۔ چنانچہ ان کو ہم ایک مکتبِ فکر نہیں کہہ سکتے، ہاں ان کو ہم ایک جامعہ یا ایک یونیورسٹی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جس میں طرح طرح کے دبستان موجود ہیں اور طرح طرح کے دبستانوں نے ان سے فیض اٹھایا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقام یعنی اتنا اثر، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، ان سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہوا، اور میں  سمجھتا ہوں جب تک ان سے بڑا شاعر کوئی پید ا نہیں ہوتا اس وقت تک کسی اور کو یہ مقام حاصل نہیں ہو گا‘‘۔

معروف ادیب اور شاعر جناب جمیل یوسف نے ادبی ماہنامے ا لحمرا کے تازہ شمارے میں لکھّا ہے ’’اسلام آباد ہوٹل میں ہونے والی ایک تقریب کی صدارت فیض احمد فیضؔ فرما رہے تھے، اسٹیج سیکریٹری نے صاحبِ صدر کو بلاتے وقت جوش میں یہ بھی کہہ دیا کہ اقبالؔ زندہ ہوتے تو وہ بھی فیضؔ پر رشک کرتے۔ یہ سنتے ہی فیضؔ صاحب کے چہرے پر ناگواری اور خجالت کی کیفیّت جھلکنے لگی۔

وہ بوجھل قدموں سے اٹھے اور مائیک پر آتے ہی فرمایا ’’کہاں اقبالؒ اور کہاں یہ خاکسار۔ میں تو اقبالؔ کا پرستار ہوں جہاں تک اقبالؔ کی شاعری کا تعلق ہے یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال ؒ ایک بلند وبالا پہاڑ ہے اور ہم اس کے دامن میں پڑے ہوئے پتھر۔‘‘

آغا ناصر لکھتے ہیں ’’فیضؔ صاحب نے جب علامہ اقبالؔ کے ایک فارسی مجموعہ ٔ کلام پیامِ مشرق کا اردو ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا تو بائیں بازو کے کئی لوگوں نے (بشمول مصنّف ) انھیں منع کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے کسی کی نہ سنی اور کہا ’’آپ نہیں جانتے، یہ کس پائے کی شاعری ہے۔ اس کا ترجمہ کرنا بھی ایک عزاز ہے۔‘‘ بلاشبہ فیضؔ صاحب خود ایک بڑے شاعر بھی تھے اور بڑے انسان بھی۔

دوبڑے سانحے

چند روز پہلے دوبڑی شخصیات اس دنیا سے چلی گئیں۔ ڈاکٹراعجاز حسن قریشی بہت بڑے ادارہ ساز تھے۔ وہ اردوڈائجسٹ سمیت کئی عظیم اداروں کے بانی تھے۔ مسعود مفتی ایک روشن ضمیر سول سرونٹ اور ایک جیّد ادیب تھے، ان کی آخری کتاب ’دومینار‘ سول سروس کے زوال کی مستند تاریخ ہے۔ اﷲ تعالیٰ دونوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔