شہریوں کی زبوں حالی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 18 نومبر 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستانی شہریوں کی زبوں حالی ادارہ شماریات کے پاکستانی سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ کے معیار کے ڈیش بورڈ کے اعداد و شمار سے عیاں ہو گئی۔ اس ڈیش بورڈ کے مطابق ملک میں شرح خواندگی 60 فیصد ہے اور 18 فیصد گھروں میں بیت الخلاء (ٹوائلٹ) نہیں ہے۔

پرائمری اسکول جانے والوں کی شرح 87 فیصد اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی شرح 27 فیصد ہے۔ صرف34 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گھر میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ رکھنے والوں کی شرح 45 فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 18 فیصد آبادی نلکا  سے پانی استعمال کرتی ہے۔

9 فیصد کو فلٹریشن کی سہولیات میسر ہیں۔ پاکستان میں 91 فیصد گھروں کو بجلی کے کنکشن مہیا ہیں اور 20 فیصد گھرانوں سے میونسپلٹی کوڑا اٹھاتی ہے۔ ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ آبادی کے 56.05 فیصد کے پاس روزگار ہے۔ ایک متوسط گھرانا 6.24 افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں گھرانہ کی اوسط ماہانہ آمدنی 41 ہزار 545 روپے اور اوسط اخراجات 37 ہزار 150 روپے ہے۔ خواتین میں شادی کی شرح 67 فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کی آزادی کو 70برس گزر گئے مگر بین الاقوامی معیار کے مطابق شہریوں کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

تعلیم سے متعلق اعداد و شمار زیادہ مایوس کن ہیں۔ اب بھی ملک میں سرکاری طور پر خواندگی کی شرح 60 فیصد ہے۔ اس سرکاری شرح خواندگی کے مطابق آبادی کا 40 فیصد حصہ اب بھی ناخواندہ ہے۔ تعلیمی ماہرین اس شرح خواندگی سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت محض دستخط کرنے والے شخص کو خواندہ قرار دے رہی ہے۔

حقیقتاً مادری زبان میں لکھنے پڑھنے، اعداد کو شناخت کرنے اور حساب کتاب کرنے والے افراد کی شرح بہت کم ہے، یوں اس شرح خواندگی کے مطابق خواندہ قرار پانے والا آبادی کا ایک بڑا حصہ قومی معیشت کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ پھر اس رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ 2011-2012 میں پرائمری اسکول جانے والے بچوں کی شرح 92 فیصد تھی جو 2019-2020 میں کم ہو کر 87 فیصد ہوگئی ہے۔

یہ حیرت انگیز اعداد و شمار ہیں۔ برسر اقتدار حکومتوں نے ہر سال اپنے بجٹ میں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا۔ 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے پاس آیا اور اس ترمیم کے تحت قومی مالیاتی ایوارڈ (N.F.C) کے تحت صوبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور ہر صوبہ نے تعلیم کے شعبہ کے لیے مختص رقوم میں اضافہ کیا۔ پھر عالمی اداروں نے صوبوں کو تعلیم کے شعبہ کے لیے خاطرخواہ امداد دی مگر حیرت انگیز طور پر پرائمری اسکول جانے والے بچوں کی شرح 5 فیصد کم ہوئی۔

ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے۔ پرائمری اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ کا تعلق غربت اور مذہبی انتہاپسندی سے ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے معاشی بحران شدید ہوا، یوں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی۔ کئی والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام کرانے پر مجبور ہوئے۔

کسی حکومت نے پرائمری اسکول میں زیر تعلیم بچیوں اور بچیوں کے لیے وظائف کے ذریعہ کشش پیدا نہیں کی۔ وفاقی حکومت کے اس اہم ادارہ کی جانب سے پرائمری اسکول جانے والے طلبہ کی تعداد میں کمی کے بارے میں حقیقت کو عیاں کرنے سے 60 فیصد شرح خواندگی کے دعوی کو مشکوک کردیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آلات مثلاً کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ رکھنے والے افراد کی شرح صرف 14فیصد ہے، یوں 86 فیصد آبادی کے پاس یہ جدید آلات نہیں ہیں۔ 45 فیصد آبادی کے پاس موبائل اور اسمارٹ فون  ہے۔

پاکستان اس تناظر میںبھارت اور بنگلہ دیش سے  پیچھے ہے۔ کووڈ۔19 کی وبا کے دور میں تعلیم کا واحد ذریعہ Online Education ہے مگر جب 86 فیصد افراد کے پاس یہ آلات نہیں ہو ںگے تو وہ Online Education سے محروم رہیں گے۔ 14فیصد آبادی کا تعلق بھی شہروں سے ہے۔ دیہات اور دور دراز علاقوں میں یہ سہولت  نہ ہونے کے برابرہے۔ یہ لوگ کووڈ۔19کی وبا میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے، یوں یہ افراد ایک بہتر روزگار بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ آبادی کے صرف 18فیصد حصہ کو نل کا پانی میسر ہے جب کہ 9 فیصد آبادی کو فلٹریشن کی سہولت دستیاب ہے۔ یوں 89 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ یہی بنیادی وجوہات ہیں کہ جس کی بناء پر بچوں سے لے کر بوڑھوں میں ٹائیفائیڈ، مختلف نوعیت کے یرقان اور پیٹ کی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کے مرنے کی شرح اس خطہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اب بھی 10 فیصد افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ فضلہ اور گندے پانی کی نکاسی کے لیے جدید فلش ٹوائلٹ کا نظام ضروری ہے۔ اس نظام کی بناء پر صفائی کا معیار بہتر ہوتا ہے اور بیماریوں کا تدارک ہوتا ہے اور ایک صحت مند خاندان تشکیل پاتا ہے جو صحت مند معاشرہ تشکیل کرتا ہے۔

یہ صحت مند افراد ریاست کا بہترین سرمایہ قرار پاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ملک بھر میں بلدیاتی نظام کے محدود اور ناقص ہونے کا بھی ذکر ہے۔ ملک بھر میں میونسپلٹی صرف 20 فیصد گھرانوں کا کوڑا اٹھاتی ہے، باقی کوڑا گلیوں اور سڑکوں پر پھیل جاتا ہے، یوں ہر شہر اور گاؤں بین الاقوامی معیار کے مطابق گندا رہتا ہے۔ یہ تمام صورتحال معاشرہ اور کمیونٹی کی مجموعی صحت کے ماحول کو متاثر کرتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک گھرانہ اوسط 6.4 افراد پر مشتمل ہے۔ یہ اعداد و شمار آبادی میں مسلسل اضافہ کے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔

آبادی سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافہ غربت، افلاس اور جہالت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اسی طرح گھرانوں کی اوسط ماہانہ آمدنی 41 ہزار 545 روپے ہے جب کہ ماہانہ اخراجات 37 ہزار 159 روپے ہے، یوں ایک عام گھرانہ میں بچت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پاکستان اب تک صد فیصد شرح خواندگی کا ہدف حاصل نہیں کر سکا۔  کئی لاکھ  بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس صورتحال میں ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔

جب تک صد فیصد خواندگی کی شرح کا ہدف پورا نہیں ہو گا  غربت ختم ہو گی نہ ہی معاشی اہداف حاصل ہو سکیں گے۔ پاکستان سیکیورٹی اسٹیٹ ہے، عام آدمی کے لیے ریاست کے پاس وسائل دستیاب نہیں ہیں، یوں ترقی کا عمل پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔

عام شہری کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کا قیام ضروری ہے۔ ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام کے لیے تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے وفاقی بجٹ کا 60 فیصد مختص ہونا چاہیے۔ ورنہ اگلے سال  اعداد و شمار اور زیادہ خراب ہوںگے، یوں عام آدمی اور ریاست کے درمیان فاصلے اور بڑھ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔