حکومتی شخصیات بھی کورونا وباء کی زد میں، سخت اقدامات کی ضرورت

عامر خان  بدھ 18 نومبر 2020
وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ، جام اکرام اللہ دھاریجو، ڈاکٹرعامرلیاقت حسین سمیت اہم شخصیات اس مہلک مرض میں مبتلاہوگئی ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ، جام اکرام اللہ دھاریجو، ڈاکٹرعامرلیاقت حسین سمیت اہم شخصیات اس مہلک مرض میں مبتلاہوگئی ہیں۔ فوٹو: فائل

 کراچی: ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی کورونا وائرس کی لہر کے باعث صورت حالت شویشناک ہوتی جا رہی ہے۔

وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ، جام اکرام اللہ دھاریجو، ڈاکٹرعامر لیاقت حسین سمیت اہم شخصیات اس مہلک مرض میں مبتلا ہوگئی ہیں جبکہ رکن سندھ اسمبلی جام مدد علی اس وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے انتقال کرگئے ہیں۔کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں میں سیکرٹری محکمہ داخلہ ڈاکٹرعثمان چاچڑ بھی شامل ہیں۔

صوبے میں مرض میں مبتلا مریضوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور اب یومیہ متاثر ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو چکی ہے اور جیسے جیسے موسم سرد ہو رہا ہے اس میں مزید شدت کا امکان ہے۔ طبی ماہرین اس خدشے کا پہلے ہی اظہار کر رہے تھے کہ ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام ضرور ہوئی ہے لیکن اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے لیکن عوام نے اس تنبیہہ کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا، جس کے نتائج ہمیںآج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز عوام نے یکسر نظرانداز کردیا لوگوں کی اکثریت نے ماسک کا استعمال ترک کردیا۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی پابندی کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ہوٹلوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور مختلف عوامی مقامات پر لوگوں کے میل جول نے کورونا وائرس کو ایک مرتبہ پھر پھل پھولنے کا موقع فراہم کردیا۔

اس ضمن میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی یہ لہر پچھلی لہر سے زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں موسم کا بھی بڑا عمل دخل ہوگا۔سردی کی شدت میں جتنا اضافہ ہوگا ویسے ہی مرض کے پھیلاؤ بھی بڑھے گا۔ان کا کہنا ہے کہ عوام کی لاپروائی حکومت کو اس بات پر مجبور کررہی ہے کہ وہ مزید سخت فیصلے کرے۔اگر ملک ایک مرتبہ پھر مکمل لاک ڈاؤن کی طرف چلا جاتا ہے کہ اس کے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایک سروے کے مطابق ملک کے صرف 35 فیصد افراد کورونا وائرس کو سنجیدگی کے ساتھ لے رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک بات ہے۔طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بھی موقع ہے کہ عوام سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں اور حکومتی ایس اوپیز پر از خود عملدرآمد کریں ورنہ صورت حال حکومت اور عوام دونوں کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔عوام کو چاہیے کہ وہ کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے ماسک پہنیں اور ایس اوپیز پر عمل کریں۔اس طرح ہم سندھ سمیت ملک بھر کو کورونا کی وباء سے بچا سکتے ہیں۔

جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے خیر اور شر کی جنگ جاری ہے۔نیکی اور بدی کی قوتیں ایک دوسرے سے برسرپیگار ہیں۔ہمارے معاشرے میں جہاں انتہائی خراب لوگ موجود ہیں تو وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے کردار اور طرز عمل سے لوگوں کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔صوبہ سندھ کے شہرکشمور میں پیش آنے والے ایک اندوہناک واقعہ نے قوم کو ایک نیا ہیرو دیا ہے۔

محکمہ پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش برڑو نے قوم کی ایک بیٹی کو بچانے کے لیے اپنی بیٹی کی جان و عزت کو داؤ پر لگا کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ وطن کا حقیقی ہیرو ہے۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ ملزمان نے نوکری کا جھانسہ دے کر کراچی سے تعلق رکھنے والی خاتون اور ان کی کمسن بیٹی کوکشمور بلانے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

ملزمان نے خاتون کی 5 سالہ بیٹی کو یرغمال بنا لیا تھا اور اسے چھوڑنے کے لیے دوسری خاتون کا بندوبست کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ملزمان نے درندگی کی اتنہا یہ کی کہ 5سالہ بچی کو بھی بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے وہ اس وقت تشویشناک حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے۔ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے اے ایس آئی کی بیٹی کے ذریعے جال بچھایا گیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا، بعد ازاں ملزم ملک رفیق ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔

اس تمام واقعہ میں پولیس افسر کی ہمت اور بہادری کی ہر سطح پر ستائش کی جارہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے خود مذکورہ اے ایس آئی اور اس کی بیٹی سے بات کی جبکہ سندھ حکومت نے محمد بخش برڑو کی بیٹی کے لیے 10 لاکھ روپے انعام اور اس کے لیے قائد اعظم گولڈ میڈل کی سفارش کی ہے اس کے علاوہ سینٹرل پولیس آفس میں محمد بخش برڑو کے اعزاز میں ایک تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا،جس میں آئی جی سندھ سمیت تمام سینئر پولیس افسران نے شرکت کی۔

اس موقع پر آئی جی سندھ  نے بھی اے ایس آئی کے  لیے محکمہ سندھ پولیس کی جانب سے 20 لاکھ روپے انعام، تمغہ شجاعت اور بیٹی کے لیے ستارہ امتیاز دینے کی سفارش کی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اس حوالے سے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کریں، جس کے بعد حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ کوئی ملزم اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوجائے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ متاثرہ خاتون کی مدد کرے۔

سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد کراچی سرکلر ریلوے کی جزوی بحالی 19نومبر سے ہوگی۔ پاکستان ریلوے نے  تقریبا 55 کلو میٹر پرانے روٹ کے 14 کلومیٹر کلیئر راستے پر  ٹرین کی بحالی کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے۔خیال رہے کہ 1964 میں کھولا گیا کراچی سرکلر ریلوے ڈرگ روڈ سے شروع ہوتا تھا اور شہر کے وسط میں اختتام پذیر ہوتا تھا تاہم بڑے نقصانات اٹھانے کے بعد 1999 میں کراچی سرکلر ریلوے نے آپریشن بند کردیا تھا۔

اس ضمن میں چیئرمین پاکستان ریلوے ڈاکٹر حبیب الرحمن گیلانی کا کہنا ہے کہ نیا کے سی آر 2 سے ڈھائی سال کے عرصے میں مکمل ہو جائے گا اور یہ ہماری طرف سے کراچی کے عوام کے لیے تحفہ ہوگا۔اس حوالے سے شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے وقت کے ساتھ اپنی افادیت کھوچکا ہے۔ماضی میں جس طرح لوگ اس سے مستفید ہوتے تھے اب اس کی بحالی سے ان کو وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ سرکلر ریلوے کے اسٹیشنوں سے رہائشی علاقے کافی فاصلے پر ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی لیاقت آباد کے غریب آباد اسٹیشن پر اترتا ہے اور اسے لیاقت آباد ڈاکخانہ جانا ہے تو اسے بس سے مزید سفر کرنا ہوگا۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے سے زیادہ کراچی کو جدید بسوں کے نظام کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔