بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی تبدیلی کیلئے رابطے

رضا الرحمٰن  بدھ 18 نومبر 2020
خودوزیراعلیٰ جام کمال نے یہ کہہ کرکہ ’’اے این پی اگراُن کے اتحاد سے نکل بھی جاتی ہے تواُن کی حکومت کوکوئی خطرہ نہیں‘‘۔ فوٹو: فائل

خودوزیراعلیٰ جام کمال نے یہ کہہ کرکہ ’’اے این پی اگراُن کے اتحاد سے نکل بھی جاتی ہے تواُن کی حکومت کوکوئی خطرہ نہیں‘‘۔ فوٹو: فائل

 کوئٹہ: بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں آج کل وفاقی اور بلوچستان حکومت کے مستقبل کے حوالے سے گرما گرم بحث چل رہی ہے۔

ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کا آغاز جام حکومت سے ہوگا جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے اندرون خانہ رابطوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم میں موجود جماعتیں اہم کردار ادا کرنے کیلئے نیٹ پریکٹس کر رہی ہیں جبکہ ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جام حکومت کی اہم اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی جو کہ پی ڈی ایم میں بھی اہم جماعت تصور کی جاتی ہے بلوچستان میں جام حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف سے تنقید کا شکار ہے۔

خود وزیراعلیٰ جام کمال نے یہ کہہ کرکہ ’’اے این پی اگر اُن کے اتحاد سے نکل بھی جاتی ہے تو اُن کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘‘یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اے این پی کو اپنے اتحاد سے کسی وقت بھی نکال سکتے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ اے این پی خود حکومت سے نکل جائے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اے این پی جس کے حوالے سے بعض سیاسی محفلوں میں کہا جا رہا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کے اگلے جلسوں پشاور یا لاہور میں جام حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر سکتی ہے تاہم اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے والد شہید جیلانی خان کی برسی پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی خیبر پشتونخوا کے صوبائی صدر ایمل ولی خان اور دیگر کا اس حوالے سے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی خوش ہوتا ہے یا ناراض سب سن لیں ہم صوبائی حکومت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اتحاد ی ہیں کسی کے کہنے پر جاہلانہ اقدام نہیں اٹھائیں گے۔

ہمیں بلوچستان حکومت کا طعنہ دینے والے آستین کے سانپ ہیں ہم آج الگ ہوں تو یہ حکومت کا حصہ بن جائیں گے ہم ایک نظریے کے تحت سیاست کرتے ہیں جس دن ہمیں لگا کہ حکومت میں رہنے سے ہمارے نظریے کو نقصان پہنچ رہا ہے اسی وقت حکومت کو لات مار کر باہر نکل جائیں گے۔بعدازاں کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اتحاد صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب سیاسی جماعتیں کوئی ڈیل نہ کریں، حکومت کو نکالنے کے آئینی آپشن کم ہیں ہم کسی بھی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنیں گے، پی ڈی ایم کا متفقہ بیانیہ جلد ہی طے کر لیا جائیگا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر آگے چل کر اے این پی نے صوبائی مخلوط حکومت سے علیحدگی کے حوالے سے کوئی قدم اٹھایا تو یقیناً سیاسی طور پر اس کا قد بڑھے گا اور بلوچستان میں بھی اُس کی سیاسی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی کیونکہ جس طرح سے اُسے جام حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے حکومتی اور اپوزیشن کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے اُسے سیاسی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کا یہ کہنا کہ اے این پی کے جانے سے اُن کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا درست نہیں۔کیونکہ اے این پی ایک ایسی جماعت ہے جس میں سیاسی سوجھ بوجھ اور پختگی رکھنے والے رہنمائوں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور اس کے علاوہ اس کی قیادت بھی ایسے سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو کہ اچھی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے کسی بھی حکومت کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں؟

اے این پی اگر جام حکومت سے الگ ہوتی ہے تو جام حکومت کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں جس کا شاید وزیراعلیٰ جام کمال کو اندازہ نہیں ان سیاسی مبصرین کے مطابق اے این پی بلوچستان میں اپوزیشن بنچوں پر جاتی ہے تو اپوزیشن میں اس وقت سردار اختر مینگل، نواب اسلم رئیسانی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے بہترین سیاسی کھلاڑیوں کی ٹیم میں شامل ہوجائے گی جس میں اے این پی کے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی بھی اپنا کلیدی کردار ادا کریں تو جام کمال جیسے نئے کھلاڑی کو پریشان کر سکتے ہیں۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال جو کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اُنہیں جماعت کی ٹیم پر بھی نظر رکھنی ہوگی جس کے بعض کھلاڑیوں کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ بات وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ وہ ’’میچ فکسنگ‘‘ کیلئے اپوزیشن کے رابطوں میں ہیں گو کہ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی ٹیم کے ایسے کھلاڑیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ’’ایمپائر‘‘ سے مدد لے رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ مطمئن بھی ہیں کہ ’’ایمپائر‘‘ ان کے ساتھ ہیں اس لئے وہ ہار نہیں سکتے؟ اور ایمپائر اُن کے ان کھلاڑیوں کو کسی بھی طرح’’آئوٹ‘‘ نہیں ہونے دینگے اور بالآخر میچ انکے حق میں آئے گا تو یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ’’ایمپائر‘‘ بھی اس وقت کپتان کے بعض غلط فیصلوں کے باعث شدید دبائو میں ہیں اور وہ کسی بھی وقت ’’انگلی‘‘ کھڑی کر کے آئوٹ دے سکتے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر اے این پی جام حکومت کا حصہ رہتی ہے تواسے سیاسی طور پر بلوچستان میں نقصان ہوگا۔

بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں تبدیلی کے علاوہ دوسرا اہم سیاسی موضوع’’ن‘‘ لیگ سے مستعفی ہونے والے جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ و رکن صوبائی اسمبلی نواب ثناء اﷲ زہری کا سیاسی مستقبل زیر بحث ہے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نواب ثناء اﷲ زہری سے پارٹی میں شمولیتی کیلئے رابطہ کر چکے ہیں جس کا اظہار نواب ثناء اﷲ زہری نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا ہے۔ نواب ثناء اﷲ زہری (ن) لیگ کی قیادت سے انتہائی ناراض ہیں اور اُنہوں نے گذشتہ دنوں یہاں تک کہہ دیا کہ بلوچستان سے (ن) لیگ کا جنازہ جاتی امراء بھجوادیا ہے ہم سیاسی لوگ ہیں کوئی جی ٹی روڈ کے نوکر نہیں میاں صاحب فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انڈیا کے’’را‘‘ فنڈڈ دہشت گردوں کو طاقتور بنا رہے ہیں اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق نواب ثناء اﷲ زہری جنہوں نے اپنی جماعت نیشنل پارٹی پیٹریاٹ کو (ن) لیگ میں ضم کیا تھا اور (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی اس جماعت کو دوبارہ بحال کرنے کے علاوہ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل اور پی پی پی کی دعوت پر اُس میں شمولیت کے حوالے سے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے حوالے سے بھی اعلیٰ سطح پر رابطے کئے جا رہے ہیں اور اس نئی سیاسی جماعت کی تشکیل میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے سرگرم ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جس میں (ن) لیگ، پی پی پی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے ناراض رہنمائوں و کارکنوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرکے اسے چاروں صوبوں میں بھی فعال کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس نئے سیاسی پلیٹ فارم کا باقاعدہ اعلان دسمبر میں متوقع ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ رکن صوبائی اسمبلی نواب اسلم رئیسانی، انکے بھائی سابق وزیر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی سمیت18 افراد کے خلاف قومی خزانے کو غیر قانونی طور پر817 ملین روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا گیا ہے نواب اسلم رئیسانی اور نوابزادہ لشکری رئیسانی نے ریفرنس کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔