گلگت بلتستان میں شکست، پی ڈی ایم تحریک پر کیا اثرات ہوں گے؟

شاہد حمید  بدھ 18 نومبر 2020
پی ڈی ایم جلسوں کے بعداسلام آبادکی طرف لانگ مارچ اور اس میں شامل جماعتیں اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشنز کی طرف جائیں گی۔ فوٹو : فائل

پی ڈی ایم جلسوں کے بعداسلام آبادکی طرف لانگ مارچ اور اس میں شامل جماعتیں اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشنز کی طرف جائیں گی۔ فوٹو : فائل

 پشاور:  گلگت بلتستان کے انتخابات کا انعقاد ہو چکا اور حسب روایت وہاں پر اسی پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے کہ جو مرکز میں برسراقتدار ہے۔

یہ کوئی انہونی یا اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں عموماً وہی پارٹی اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت بناتی آئی ہے کہ جس کی مرکز میں حکومت ہو اور اسی ترتیب کے مطابق اس مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کو گلگت بلتستان میں اکثریت ملی ہے جس کے ساتھ آزاد امیدوار بھی یکجا ہونگے اورآثار یہی نظر آرہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف وہاں حکومت تشکیل دے گی جبکہ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اوردیگر جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھیں گی۔

اس وقت ملک میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے جو حکومت مخالف تحریک شروع کر رکھی ہے اس پر یقینی طور پر گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج کا کسی حد تک اثر ضرور ہوگا کیونکہ یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ پی ڈی ایم، گلگت بلتستان میں رنگ نہیں جما پائی۔ چونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مشترکہ طور پر گلگت بلتستان کے انتخابی میدان میں نہیں اتریں اور اس اتحاد میں شامل ہر پارٹی نے انفرادی طور پر الگ سے میدان گرمانے کی کوشش کی اسی لیے وہاں ان پارٹیوں کو جو بھی کچھ حاصل ہوا وہ بھی انفرادی طور پر ہی ملا، پیپلزپارٹی وہاں دوسری اکثریتی پارٹی ثابت ہوئی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور جے یوآئی ووٹروں کو متاثر کرنے میں ناکام رہیں۔

جس کی وجہ سے انھیں وہاں اس طریقے سے نشستیں بھی نہیں مل سکیں، اگر پی ٹی آئی گلگت بلتستان میں اکثریت حاصل نہ کر پاتی تو اس صورت میں پی ڈی ایم اس کا فائدہ حکومت مخالف تحریک میں لینے کی کوشش کرتی تاہم اب معاملہ الٹ ہوگیا ہے تو اس صورت میں پی ٹی آئی اس بات کا فائدہ لینے کی کوشش کرے گی اور یقینی طور پر پی ٹی آئی کی اس جیت کے قدرے منفی اثرات پی ڈی ایم کی تحریک پر ضرور مرتب ہونگے،گو کہ گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر چاروں صوبوں کے حالات میں فرق ضرور ہے تاہم چونکہ وہی جماعتیں دونوں جگہوں پر ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں اس لیے ہار جیت کے اثرات بھی سفر کرتے ہوئے یہاں ضرور پہنچیں گے۔

پی ڈی ایم کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت اس کا سارا فوکس 22 نومبر کے پشاور جلسہ پر ہے، پی ڈی ایم اس سے قبل گوجرانوالہ،کراچی اور کوئٹہ میں جلسوں کا انعقاد کر چکی ہے اور اب پشاور کی باری ہے،اس سلسلے میں حال ہی میں وزیرخارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے جس منصوبے کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

اس میں جن شہروں کو ہدف بنایاجانا ہے ان میں پشاور بھی شامل ہے جبکہ پشاور اورکوئٹہ کے حوالے سے پہلے سے بھی دہشت گردی کی اطلاعات ہیں،ان حالات میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو تمام تر صورت حال کو مد نظررکھتے ہوئے جلسہ کے انعقاد کے سلسلے میں ضرور نظرثانی کرنی چاہیے تاہم پی ڈی ایم کی قیادت اس بات کے لیے تیار نہیں ۔ کورونا وباء کے خطرناک پھیلاؤ کی وجہ سے بھی ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جلسے منسوخ کر کے بعد کا شیڈول دیں، ورنہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

پی ڈی ایم جلسوں کے بعد اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ اور اس میں شامل جماعتیں اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشنز کی طرف جائیں گی جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری تنا ؤ میں مزید شدت پیدا ہو گی جس میں کمی لانے کے لیے صدر مملکت کو بحیثیت ریاستی سربراہ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جس کے لیے انھیں اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے اور ان کی سننے کے بعد حکومت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مفاہمت کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔

تاکہ اداروں کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں واقعتاً اسمبلیوں سے استعفوں کی راہ اپناتی ہیں تو اس صورت میں آئندہ سال مارچ میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو پوری ریاست اور ملک کا نقصان ہے جس سے بچنا چاہیے اور اس کے لیے جذباتی بننے کی بجائے ٹھہراؤ اور مذاکرات کی راہ ہی سود مند ہو سکتی ہے جو اورکوئی نہیں بلکہ صدر مملکت ہی ہموار کر سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ یہ کردارادا نہیں کریں گے تو کسی اور کو ادا کرنا ہوگا جس سے مسائل میں کمی کی بجائے مزید الجھاوے پیداہونگے ۔اور ان حالات میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سی پیک کی جانب سے پشاور میں مذاکرے کا انعقاد خوش آئند ہے جو اس حوالے سے تھا کہ تمام شراکت داروں کی سی پیک میں شراکت کو یقینی بنایا جا سکے۔

مذکورہ مباحثے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سرمایہ کاری بھی لائی جا سکے اور تجارت میں بھی اضافہ کیا جا سکے اور اس مباحثے کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ افغانستان سی پیک کاحصہ بننے پر راضی ہے جو اس منصوبے کا بنیادی مقصد بھی ہے کیونکہ یہ منصوبہ صرف گوادر سے چین تک کے لیے نہیں بلکہ ون بیلٹ، ون روڈ کے تصور کے مطابق اس منصوبے سے افغانستان کے ساتھ وسطی ایشیاء کو بھی مستفید ہونا ہے اور ساتھ ہی افریقی ممالک بھی اس میں شامل ہونے ہیں جس کی ابتداء پاکستان کے بعد افغانستان ہی سے ہونی تھی اور افغانستان اس میں شامل ہو رہا ہے وہ بھی ایسے وقت میں کہ افغانستان میں تبدیلی کا عمل جاری ہے کیونکہ دو عشروں کے بعد امریکی اور نیٹو افواج ، افغانستان سے انخلاء کی راہ پر ہیں اور ان حالات میں افغانستان میں استحکام اور معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لیے سی پیک جیسے منصوبے اہم اور بنیادی کردار ادا کریں گے۔

وزیر اعلیٰ محمود خان اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر دونوں ہی اس منصوبے کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ بھی ہیں اور وہ شبانہ روز اس کوشش میں مصروف بھی ہیں کہ کیونکر اور کیسے سی پیک کا خیبرپختونخوا کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے اور ساتھ ہی افغانستان کے ساتھ تجارتی حجم میں بھی اضافہ کیا جائے جس کے لیے طورخم کے بعد انگور اڈہ اور کئی دیگر پاک،افغان سرحدی راستوں کو کھولا گیا ہے اوران کی ان کوششوں کی وجہ سے یقینی طور پر صرف پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں بھی خوشحالی اور معاشی استحکام پیدا ہو گا جس کا فائدہ اس خطے کے تمام لوگ لیں گے، اورکورونا وباء کی دوسری لہر کے دوران دیگر کئی افراد کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس وقار احمد سیٹھ بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔

جسٹس وقار احمدسیٹھ حقیقی معنوں میں ایسے جج تھے کہ جنھیں ان کی وفات پر بھی شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اور برسوں تک ان کے فیصلوں کو بھی یاد کیا جاتا رہے گا کیونکہ انہوں نے ثابت کیاکہ جج خود نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں اور ان کے فیصلوں کی بازگشت ہر سمت سنائی دیتی رہی ہے جنھیں بھلائے بھی نہیں بھلایا جا سکتا ، جسٹس وقار احمد سیٹھ سپریم کورٹ تو نہ جا سکے تاہم پشاورہائی کورٹ کی بحیثیت چیف جسٹس سربراہی ان کے پاس رہی اور اب ان کی وفات پر پشاور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قیصر رشید خان نے بطور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ حلف اٹھا لیا ہے جس سے بہرکیف ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔