قائداعظم اور تعلیم

آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ  بدھ 25 دسمبر 2013
قائداعظم نے اپنی حق حلال کی کمائی سے جو پیسہ جمع کیا، جو رقم پس انداز کی، اس کا ایک معتد بہ حصہ تعلیمی اداروں کے لیے وقف کیا۔  فوٹو : فائل

قائداعظم نے اپنی حق حلال کی کمائی سے جو پیسہ جمع کیا، جو رقم پس انداز کی، اس کا ایک معتد بہ حصہ تعلیمی اداروں کے لیے وقف کیا۔ فوٹو : فائل

 قائداعظم کی ترجیحات میں پاکستان میں سب سے پہلے تعلیمی انقلاب پھر معاشی انقلاب اور آخر میں دفاع کو مضبوط کرنا تھا۔

قائداعظم کو احساس تھا کہ جو قومیں تعلیم کو اولیت دیتی ہیں وہ معاشی ترقی کی طرف گام زن ہوکر اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کرلیتی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل جب گوکھلے نے پرائمری لازمی تعلیم کا بل پیش کیا تو قائداعظم نے اس کی تائید میں بھرپور تیاری کے ساتھ تقریر فرمائی۔ دہلی میں دربار کے انعقاد کے موقع پر تاج برطانیہ نے پچاس لاکھ روپے کی رقم تعلیمی مد میں اخراجات خصوصاً ابتدائی تعلیم عام کرنے کے لیے مختص کرنے کا اعلان بھی کردیا تھا۔

حکومت اور اس کے حامی اراکینِ کونسل یہ چاہتے تھے کہ ابتدائی تعلیم عام کرنے کے معاملے کو صوبائی حکومتوں (لوکل سیلف گورنمنٹ) کے لیے رضاکارانہ بنادیا جائے اور وہ اپنے موجودہ اقدامات کو اور تیز کرتے ہوئے تعلیم عام کرنے کا ہدف حاصل کریں۔ قائداعظم اس خیال سے مکمل اتفاق رکھتے تھے کہ ابتدائی تعلیم عام کرنے کا معاملہ صوبائی حکومتوں کی رضاکارانہ صوابدید پر نہ چھوڑا جائے بلکہ کونسل قانون کے ذریعے انہیں ایسی تعلیم کی لازمی فراہمی کا پابند کرے۔ قائد اعظم کا استدلال تھا کہ عوام کی نجات اور فلاح و بہبود کے لیے ابتدائی تعلیم کو لازمی قرار دینے کے علاوہ فی الحال کوئی اور متبادل راستہ موجود نہیں ہے۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام کو اس وقت تک نجات حاصل نہ ہوگی جب تک اس ملک میں (تعلیم) کو لازمی کرنے کا اصول رائج نہ کیا جائے۔‘‘

’’۔۔۔۔۔۔ یہ ہر مہذب حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو تعلیم دے اگر آپ (حکومت) کو غیر مقبولیت کا سامنا کرنا پڑے، اگر آپ کو کچھ خطرات ہوں تو بھی فرض کی ادائیگی کے نام پر ان کا سامنا کیجیے۔‘‘

ابتدائی تعلیم لازمی کرنے کے بل کی حمایت کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو تعلیم عام ہوجانے میں سیاسی اور معاشرتی خطرات نظر آرہے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے، تعلیم بغاوت یا قانون سے انحراف قطعی نہیں ہے۔ Education is not sedition برطانوی حکومت کو تو تعلیم یافتہ لوگوں کا تعاون حاصل ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کے غلط اقدام کی نشان دہی کریں۔ یہ نشان دہی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں اور نہ ہی قانون شکنی ہے بلکہ اس کا مقصد تو حکومت کی اصلاح ہے۔ آپ نے خود اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ گو ہمیں برطانوی حکومت عزیز ہے لیکن اپنا وطن اس سے زیادہ عزیز ہے۔ ایک بچہ اگر تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سیکھ لے گا تو کیا وہ حکومت مخالف بن جائے گا۔

کیا وہ سیاسی ایجی ٹیشن کرنے لگے گا۔ ایسا ہرگز نہیں۔ تعلیم تو انسان کی آنکھیں کھولتی ہے، اسے مقام عطا کرتی ہے۔ قائداعظم نے ابتدائی تعلیم کی حمایت میں اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ احمقوں کی دنیا میں بستے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل گئے تو نوجوان اپنے آپے میں نہیں رہیں گے، اپنے آباء واجداد کے پیشوں کی تقلید کرنا چھوڑ دیں گے۔ حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کیا جائے گا، ہڑتالیں ہوں گی اور وہ سوشلسٹ بن جائیں گی۔ لوگوں کو تعلیم سے صرف اس خدشہ کی بنا پر محروم رکھنا کہ وہ علم حاصل کرنے کے بعد ہم سے مزید حقوق مانگنے لگیں گے، لوگوں کو آج اور آج کے بعد آنے والے ادوار میں جہالت اور تاریکی میں صرف اس لیے رکھنا کہ وہ آپ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے کچھ حقوق کی بات کہہ سکتے ہیں، سراسر غیر انسانی فعل ہے۔

’’یہ مطالبہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ اگر اسے غلط سمت بتائی گئی ہے تو کہے کہ اسے غلط راستہ بتایا گیا ہے اور اسے صحیح راستہ دکھایا جائے۔‘‘

لاہور میں طلبہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا،’’میرے نوجوان دوستو! تمہیں اپنے ذہنوں کو قومی ترقی کے شعبوں کی جانب راغب کرنا چاہیے۔‘‘ قومی ترقی اور استحکام کے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ تعلیم، تجارت اور دفاعی صلاحیت ہی وہ تین بنیادی ستون ہیں جن کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہ سکتی ہیں۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے تاریخی اسٹریچی ہال میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا،’’آزادی کا حصول اور تحفظ چرخے کاتنے سے نہیں ہوسکتا (یہ گاندھی کی فکر کی جانب واضح اشارہ تھا، جس نے تعلیمی اداروں میں چرخے اور تکلی کے استعمال پر زور دینا شروع کردیا تھا) بل کہ آزادی برقرار رکھنے کے لیے محنت اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستانی مسلمان آزادی حاصل کرلیں گے لیکن اسے مستحکم رکھنے کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ محنت کرنی ہوگی۔‘‘

’’اپنے آپ کو مضبوط بنائیں، اپنے لوگوں کو تعلیم، تجارت، صنعت، کاروبار اور اپنے تحفظ کے لیے تیار کریں۔‘‘

گجرات میں منعقد ہونے والی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے انہی خیالات کا اعادہ کیا۔ تعلیم سے بہرہ مند ہونے میں تاخیر نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان اس انتظار میں کہ پہلے یہاں کا فرسودہ نظامِ تعلیم تبدیل ہوجائے، اپنی تعلیم موخر نہ کریں بلکہ فی الحال جو کچھ موجود ہے اسی کو حاصل کرلیں۔ اسی تاریخی کانفرنس سے آپ کے خطاب کا یہ اقتباس تعلیم کے مفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت کو بڑی جامعیت سے واضح کرتا ہے:

’’تعلیم کے بغیر مکمل تاریکی تھی اور تعلیم سے روشنی ہے۔ تعلیم ہماری قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔‘‘

دہلی اینگلو عربک کالج میں مولانا شوکت علی کی تصویر کی نقاب کشائی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے اپنے ان خیالات کی تائید میں مولانا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ ہندوستان کے مسلمان، جو تعلیمی اعتبار سے انتہائی پستی میں ہیں، معاشی طور پر دیوالیہ اور تجارتی و کاروباری اعتبار سے صفر ہیں، صرف اس لیے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

19 اکتوبر 1938 کو سندھ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے دوسرے سیشن منعقدہ کراچی سے خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا:

’’ابتدائی تعلیم کو عام کرکے ان لاکھوں انسانوں کو، جو لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہیں، جہالت اور تاریکی سے روشنی میں لانے کے لیے ہمیں عام تعلیم کی اشاعت اور فروغ کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بھی اقدامات کرنے چاہییں کہ ابتدائی تعلیم کو عام کیا جاسکے۔‘‘

انہوں نے مزید فرمایا:
’’ابتدائی تعلیم کو مفت کیا جائے گا۔ مسلمانوں کے مذہب اور زبان و حروف کی حفاظت کی جائے گی اور ملک میں رائے عامہ بیدار کی جائے گی۔‘‘

1945 میں جب قیامِ پاکستان کی منزل بہت قریب آچکی تھی، گجرات مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں آپ کو مدعو کیا گیا۔ آپ نے دعوت قبول کرنے کے لیے جو شرط عاید کی وہ تعلیمی ادارے کی معاونت تھی۔ اس علاقے کے ایک مڈل اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دلانے کے لیے آپ نے اسی علاقے کے مخیر حضرات کو اپنی مدد آپ کے تحت پچاس ہزار روپیہ جمع کرنے کی ہدایت کی۔ قائداعظم کی یہ اسکیم نہ صرف کام یاب رہی بلکہ اسماعیل چندریگر کے بقول بہت کم وقت میں پچاس ہزار کے بجائے نوے ہزار روپے جمع کرلیے گئے۔ 10 مارچ 1941 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے براہِ راست طلبہ کو یہ نصیحت کی:

’’میری خواہش ہے کہ آپ اپنی تعطیلات اپنے عوام کی خواندگی میں اضافہ، معاشرتی اور معاشی بہتری، اعلیٰ سیاسی شعور اور نظم و ضبط کے فروغ جیسے تعمیری کاموں میں صرف کریں۔‘‘

تعلیمِ نسواں:

1938 کو گیا میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا:
’’تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں خواتین نے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ بچوں کو لوریاں دینے والے ہاتھ شاہوں پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ انہیں تمام سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مکمل مواقع ملنے چاہییں۔‘‘

اسی سال کے اواخر میں آپ نے سندھ مسلم اسٹوڈنٹس کانفرنس کے اجلاس منعقدہ کراچی سے خطاب کیا۔ کراچی کے اس اجلاس میں ایک سو کے قریب طالبات بھی شریک ہوئی تھیں۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں تقریر میں لڑکیوں میں تعلیم کی کمی کا ذکر کیا اور ان کے والدین کو اس کوتاہی کا ذمہ دار قرار دیا۔ آپ نے نصیحت کی کہ والدین اس کمی کے ازالے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت عملی اقدامات کریں۔

قیامِ پاکستان سے سات سال پہلے عین انہی دنوں میں جب لاہور کے تاریخی شہر میں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی، آپ نے لاہور کے اسلامیہ کالج برائے خواتین میں خصوصی دعوت پر شرکت کی۔ اپنے خطاب میں آپ نے کالج کی طالبات کو ان کی ماؤں سے زیادہ خوش نصیب قرار دیا کیوںکہ وہ لڑکیاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں، جب کہ ان سے پہلے کی لڑکیوں کو یہ سہولتیں میسر نہ تھیں۔ اسی تقریب میں آپ نے مردوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ عورتوں کو اپنے برابر سمجھیں۔ 10 مارچ 1941کو آپ نے علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’علیگڑھ مسلم بھارت کا اسلحہ خانہ ہے اور آپ اس کے قابلِ فخر سپاہی ہیں۔‘‘

قائداعظم نے ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا:
’’ہندوستان میں تدریس کا ایک لازمی نتیجہ سامنے آیا ہے کہ ہمارے ذہن مصنوعات کی طرح ڈھالے جارہے ہیں، جیسے یہ تعلیمی ادارے نہ ہوں، روزگار کی تیاری کی فیکٹریاں ہوں کیوںکہ بیشتر کا مقصد ہی روزگار ہے۔‘‘

پاکستان کے لیے تعلیمی پالیسی:

24 تا 26 اپریل 1943 کو دہلی میں مسلم لیگ کے اجلاس میں طے کیا جانے والا یہ فیصلہ آپ کی اسی تعلیمی سوچ کا اظہار تھا، جس میں طے ہوا تھا کہ:
’’چند مستند ماہرینِ اسلام کی ایک مجلس تعمیر ملی کی جائے جو قرآن شریف اور سائنس جدید کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی زندگی کے مسائل پر نظر ڈالے۔ قائداعظم ان امور کو طے کرنے کے لیے کمیٹیاں بنائیں۔ کونسل نے مزید اختیار یہ بھی دیا کہ وہ شعبۂ اسلامیات و شعبہ تبلیغ و اصلاح ترتیب دیں جو تعلیم عام اور معاشرتی اصلاح اس طرح کریں کہ اسلام کے بنیادی اصول اور تعلیمات پر عوام کا شعوری ایمان پختہ اور مضبوط ہو۔‘‘

جدید تعلیم کے لیے منصوبہ بندی:

قیامِ پاکستان سے پہلے کے دس سال کا عرصہ سخت ترین سیاسی کشمکش کا دور تھا۔ مسائل اور مشکلات میں گھرے ہوئے قائداعظم نے ان حالات میں بھی تعلیم پر اپنی توجہ کم نہ ہونے دی۔ 1943 میں قیامِ پاکستان کو یقینی جانتے ہوئے آپ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جسے پاکستان میں تعلیمی اور معاشی منصوبہ بندی کا کام سونپا گیا۔ اسے پلاننگ کمیٹی کا نام دیا گیا تھا، جو 24 تا 26 دسمبر 1943 کو کراچی میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں منظور ہوئی تھی۔ اس کے قیام کا عندیہ قائداعظم پہلے ہی دے چکے تھے۔

کمیٹی کے قیام اور اس کے اراکین کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے انہیں یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ وہ جون 1944 تک عبوری رپورٹ اور اس کے بعد جلد ہی اپنی تفصیلی رپورٹ قائداعظم کو براہِ راست پیش کریں۔ کمیٹی کے ذمہ جو کام لگایا گیا تھا وہ ایک پنج سالہ پروگرام تیار کرنا تھا جو پاکستان کے تعلیمی اور معاشرتی شعبوں میں ترقی کی راہیں متعین کرے اور مفت بنیادی تعلیم کے پروگرام کو رو بہ عمل لانے کے اقدامات تجویز کرے۔ اس کمیٹی میں مندرجہ ذیل شخصیات شامل تھیں: نواب اسماعیل خاں، ڈاکٹر سید ظفر الحسن، ڈاکٹر ذکی الدین، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی۔ خان بہادر سید آل علی نقوی، ڈاکٹر محمد عزیز احمد، خان بہادر غلام نبی قاضی، پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر افضال حسین قادری۔

پلاننگ کمیٹی نے کام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اسے مختلف ذیلی شعبوں کے معاملات کی مناسبت سے مکمل کرنا ضروری سمجھا۔ اس مقصد کے لیے چار ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ کام کی مناسبت سے ان کمیٹیوں کو ان ناموں سے موسوم کیا گیا اور ان کے ذمہ الگ الگ رپورٹیں مرتب کرنے کا کام سونپا گیا: کمیٹی برائے فنی اور سائنسی تعلیم، کمیٹی برائے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم، کمیٹی برائے اسلامی ثقافت اور کمیٹی برائے اعلیٰ تعلیم۔

ہندوستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پرتشدد واقعات کی وجہ سے مرکزی کمیٹی اور اس کی ذیلی کمیٹیوں کو یک سوئی سے کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ البتہ صرف پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے لیے بنائی جانے والی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ مرتب کی، جسے اس کے کنوینر ڈاکٹر محمد عزیز احمد نے شائع کرایا۔

تعلیم کے لیے ایک نئی سمت کا تعین قائداعظم کی وہ خواہش تھی جس کا اظہار بہت واشگاف الفاظ میں آپ کے اس پیغام سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے پاکستان میں 27 نومبر نومبر 1947 کو منعقد ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس ’’آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام ارسال کیا تھا۔ آپ نے فرمایا:

’’آپ جانتے ہیں کہ صحیح قسم کی تعلیم کی اہمیت پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ اگر ہمیں ترقی کرنا ہے تو ہمیں سنجیدگی کے ساتھ تعلیم کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کی تشکیل ان خطوط پر کرنی چاہیے جو ہمارے قومی مزاج کے مطابق ہوں اور ہماری تاریخ اور ثقافت سے ہم آہنگ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں جو زبردست ترقی دنیا میں ہوئی ہے، اسے بھی اپنا نظامِ تعلیم وضع کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے۔

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس نظامِ تعلیم پر ہوگا جو ہم وضع کریں گے اور اس امر پر بھی ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کرتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے سچے خادم بن سکیں۔ تعلیم کے معنی صرف درسی اور کتابی تعلیم نہیں حالاںکہ ہماری درسی تعلیم کی حالت بھی خراب ہے۔ ہمیں تعلیم کے ذریعے آنے والی نسلوں کی توانائی کو بڑھانا ہے اور ان کے کردار کی تشکیل کرنی ہے۔ اس وقت ہمیں سائنسی اور تکنیکی تعلیم و تربیت کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔‘‘

قائداعظم نے اپنی حق حلال کی کمائی سے جو پیسہ جمع کیا، جو رقم پس انداز کی، اس کا ایک معتد بہ حصہ تعلیمی اداروں کے لیے وقف کیا۔ وہ اپنا ایک ایک پیسہ کس طرح جمع کرتے تھے، اس کی صرف ایک مثال ہی پیش کی جارہی ہے۔ بمبئی الیکٹرک کمپنی نے ان کے گھر میں بجلی کی مرمت کے لیے پانچ روپے کا تخمینہ دیا، لیکن جب بل بھیجا تو وہ دس روپے کا تھا۔ قائد اعظم نے اسے نوٹس بھیجا اور آخرکار بمبئی الیکٹرک کمپنی کو صرف پانچ روپے ہی ادا کیے۔

قائد اعظم نے اپنی وصیت 30 مئی 1939 کو تحریر فرمائی، جس کے مطابق انہوں نے پچیس ہزار روپے انجمنِ اسلام اسکول بمبئی کے لیے مختص فرمایا۔ پچاس ہزار روپے بمبئی یونیورسٹی کے لیے اور پچیس ہزار روپے عربک کالج دہلی کے لیے مختص فرمایا۔ بقیہ رقم کا ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی، دوسرا حصہ اسلامیہ کالج پشاور اور تیسرا حصہ سندھ مدرسہ کراچی کے لیے مختص فرمایا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن ایڈورڈ لائن (Edward Lyon) نے وکٹوریہ ہال فریڈ فورڈ (انگلستان) میں ان کی زندگی کے اس پہلو کو ان کی تعلیمی کاوشوں کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا:

’’جناح تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے۔ اپنی پوری زندگی انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ انہوں نے اپنی حیثیت میں ساری دولت تعلیمی اداروں کے نام کردی۔ یہ ان کا ایسا پیغام تھا جسے سب ہی ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘‘

تعلیم کی بابت قائداعظم کی تمام تقاریر و بیانات کا ریکارڈ ڈاکٹر ایس ایم زماں نے اپنی 655 صفحات پر مشتمل کتاب میں شایع کیا ہے۔ ’’قائداعظم اور قومی تعلیم‘‘ محمد یاسین شیخ نے کتاب شایع کی ہے اور ڈاکٹر شہلا کاظمی نے بھی ’’قائداعظم کا تعلیمی وژن‘‘ کے نام سے ان کے اقوال کو ایک جگہ جمع کرکے شایع کیا ہے۔ اس کے علاوہ اور متعدد رسائل و جرائد میں قائداعظم کی تعلیمی پالیسی شائع ہوچکی ہے۔

آج کے حکم رانوں کو اگر فرصت ملے تو قائداعظم کے نقشِ قدم پر چل کر پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔