پاکستان اور ترکی اقتصادی تعلقات بڑھائیں

ایڈیٹوریل  منگل 24 دسمبر 2013
امیدہے کہ دونوں ممالک کے درمیان شاندار تجارتی تعلقات مستقبل میں بھی آگے بڑھتے رہیں گے.فوٹو:اے ایف پی/فائل

امیدہے کہ دونوں ممالک کے درمیان شاندار تجارتی تعلقات مستقبل میں بھی آگے بڑھتے رہیں گے.فوٹو:اے ایف پی/فائل

وووزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پیر کو لاہور میں پاک ترک بزنس فورم سے خطاب میں ترکی کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت غیرملکی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور بھرپور حمایت فراہم کررہی ہے۔ بجلی کے منصوبوں میں ترکی کے تعاون کے خواہش مند ہیں۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو ایک چھت کے نیچے تمام سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ پاکستان اور ترکی اہم تجارتی شراکت دار ہیں۔

امیدہے کہ دونوں ممالک کے درمیان شاندار تجارتی تعلقات مستقبل میں بھی آگے بڑھتے رہیں گے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ پاکستان زراعت، ڈیری فارمنگ، مواصلات اور دیگر شعبوں میں ترکی کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی کے عوام پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ ترک تاجروں کے دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا نیا باب کھلے گا ۔ ترکی کے تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقعے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ترکی ہر شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون اور حمایت جاری رکھے گا۔ ہم دیرینہ تعلقات کو وسعت دینا اور باہمی تجارتی حجم بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کوفروغ دینے سے متعلق متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں پردستخط بھی کیے گئے۔

ترکی جسے کبھی یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا، آج جدید ترکی کا روپ دھار چکا ہے اور آئی ایم ایف کا بڑا کنٹری بیوٹر ہے۔ ترکی آج جس شکل میں نظر آ رہا ہے، یہ روپ ایک یا دو برس میں نہیں بنا، اس کے لیے ترک قوم نے کئی دہائیوں تک سخت محنت کی اور آج وہ دنیا کے اقتصادی اعتبار سے چند اہم ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم رہے ہیں لیکن جب سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ اقتدار میں آئی ہے، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں غیرمعمولی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان استنبول کے میئر بھی رہے ہیں، اب وہ کئی برسوں سے ترکی کے وزیراعظم ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اسی طرح صدر عبداللہ گل بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کے زبردست حامی ہیں۔ ترکوں کے برصغیر پاک و ہند کے ساتھ صدیوں پرانے نسلی اور تہذیبی تعلقات موجود ہیں۔ ترکی میں خلافت کو بچانے کے لیے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے بڑی جدوجہد کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے عوام بھی پاکستانیوں کو غیرمعمولی عزت دیتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ترکی میں پاکستانی سرمایہ کاروں اور تاجروں کے لیے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ ان کے لیے وہاں دوستانہ ماحول بھی موجود ہے جو کسی سرمایہ کار کے لیے بڑی اہم چیز ہوتا ہے۔ آج ترکی خوشحال ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ ترکی کی ترقی و خوشحالی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 2012کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی فی کس آمدنی ساڑھے دس ہزار ڈالر سے زائد ہے جب کہ پاکستان کی فی کس آمدنی بمشکل ایک ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ ترکی کونسل آف یورپ‘ نیٹو اور جی 20 کا اہم رکن ہے۔ یورپی یونین کا وہ ایسوسی ایٹ ممبر ہے۔ وہ وسطی ایشیا‘ مشرقی وسطیٰ اور افغانستان کے امور میں ایک اہم فریق ہے۔ شاید آنے والے دنوں میں اس کا کردار مزید مستحکم ہو گا۔

پاکستان اور ترکی خاصے عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی میدان میں تعاون کر رہے ہیں۔ لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ بھی ترکی کے تعاون سے ہی مکمل ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ وہ ترکی کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ پاکستان کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ ترکی کی کمپنیوں کے لیے یہ شاندار موقع ہے کہ وہ توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ اسی طرح زرعی شعبے میں بھی سرمایہ کاری کے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پاکستان کی موجودہ ملکی معیشت کو ترقی دینے کے لیے خاصی متحرک لیکن اصل سوال پھر وہی ہے کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے امن و امان کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت ترکی کی سرمایہ کاری کا رخ پنجاب کی طرف ہے۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں ترک سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔

پنجاب میں سرمایہ کاری کی وجہ یہی ہے کہ یہاں امن و امان کی صورت حال خاصی بہتر ہے۔ دیگر صوبوں کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کی اولین ذمے داری یہی ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں امن و امان کا قیام لازمی بنائیں۔ اپنے صوبوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری پر توجہ دیں کیونکہ اسی صورت میں ہی ان صوبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری ممکن ہو سکتی ہے۔ پاک ترک بزنس فورم سے ہی خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت ماحول دوست اور سستی بجلی کے منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اس وقت 75 فیصد بجلی فرنس آئل سے پیدا ہو رہی ہے جب کہ صرف 25 فیصد بجلی تیل کے بغیر پیدا ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آیندہ تیل پر چلنے والے کسی بجلی کے منصوبے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور تمام منصوبے کوئلے، گیس اور دیگر سستے ذرایع سے شروع کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں آئی پی پیز کو بھی کوئلے اور گیس پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔

پاکستان کو اس وقت توانائی کی شدید ضرورت ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ توانائی سستی ہونی چاہیے۔ توانائی سستی ہو گی تو ملک میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی۔ دنیا میں ان ہی ملکوں نے ترقی کی ہے جہاں توانائی کے ذرایع سستے ہیں۔ یہ ذرایع جتنے زیادہ مہنگے ہوں گے، ترقی کی رفتار اتنی ہی زیادہ سست ہوتی چلی جائے گی۔ امید ہے کہ پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے اور مستقبل میں ایک دوسرے کے اہم اتحادی ثابت ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔