متاثرین دنیا

طلعت حسین  بدھ 25 دسمبر 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

کہتے ہیں جو اپنے نہیں ہوتے وہ سب کے ہوتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کبھی ہمیں سعودی عرب اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ ہم بادشاہ اور خلیفہ بن جاتے ہیں۔ وضع قطع اور طور طریقے ان جیسے ہی اپنا لیتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت اپنے پہلے ادوار میں سعودی عرب کو اپنا سیاسی قبلہ تصور کرتی تھی۔ پھر حکومت تبدیل ہوتی ہے۔ موسم بدلتا ہے۔ تو ہمیں ایران سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہاں کا صدر کیسے رہتا ہے عام لوگوں جیسی زندگی گزارتا ہے۔ امریکا کے خلاف بات کرتا ہے ( میں احمدی نژاد کی بات کر رہا ہوں)۔ ہم دور سے یہ سب کچھ سوچ کر خوش ہوتے ہیں اور ایران جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر طبیعت مچلتی ہے تو ہندوستان ہماری نظروں کا تارہ بن جاتا ہے۔ ان کی معاشی ترقی بھی اتنی ہی بھاتی ہے جتنی بالی وُڈ کے ٹھمکے۔ وہاں جمہوریت کا تسلسل بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ مثالیں دیتے ہیں۔ ثقافتی اور کاروباری وفود بھیج بھیج کر ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور تو اور مولانا فضل الرحمان کو بھی ہندوستان اور پاکستان ایک روح اور دو جسم نظر آتے ہیں۔

اس دوران ہم دبئی جیسا بھی بننا چاہتے ہیں۔ وہاں کی ترقی، خوشحالی سب کی نقل کرنا چاہتے ہیں۔ جبھی تو ہمارے قائدین جن کا 47 فی صد ملک میں ٹیکس دینا پسند نہیں کرتا۔ اپنا مال و متاع، کاروبار وغیرہ سب کچھ وہاں لے جانا اپنی اولین ذمے داری سمجھتے ہیں۔ اور پھر چین تو ہمارا آئیڈیل ہے ہی۔ چِین جائے بغیر کسی لیڈر کو چَین نہیں آتا۔ ہمارا بس چلے تو قومی ترانہ بھی چینی میں پڑھنا شروع کر دیں۔ ان سب سے الگ تھلگ یا اوپر مغربی ممالک بننے کا خواب ہے۔ آپ کو یاد ہو گا شوکت عزیز نامی وزیر اعظم وہ زلزلے کے بعد جب لوگ ابھی ملبے میں پھنسے ہوئے تھے، ان شہروں کو سوئٹزر لینڈ بنانے کا ذکر کیا کرتا تھا رہی امریکا کی بات اس کے مداح تو ہم ہیں ہی۔ اور کیوں نہ ہوں۔ ہم نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم جو دلوانی ہے اور چند ایک کے لیے تو سی آئی اے بہترین نوکریوں کا بندوبست بھی کر دیتی ہے۔

اگر حسین حقانی جیسے ہوں تو کتابیں بھی لکھنے لگ جائیں گے۔ لیکن آج کل ہم ان سب سے ہٹ کر کچھ اور بننا چاہتے ہیں۔ ہمارے سر پر آج کل ترکی سوار ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس ملک کے اندر ہونے والی تبدیلیاں ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو طیب اردگان بننے کا جو شوق ہوا ہے اس کی کوئی انتہا نہیں، سب کو استنبول بھاتا ہے۔ ہر کوئی وہاں سیاحت کی ریکارڈ توڑ کارکردگی کو پاکستان میں دہرانا چاہتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کا وجود ترکی بنے بغیر نا مکمل ہے۔ یہ جوش و جذبہ آپ کو طیب اردگان کے حالیہ دورے میں بھر پور انداز سے نظر آیا ہو گا۔ لیکن آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ محبت اور یہ وارفتگی ہماری فراخدلی یا دانش مندی کا ثبوت نہیں بلکہ اس کمزوری کا اظہار ہے جو ہم دوسروں کی دوستی کے نام پر چھپانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ہم پاکستان کو پاکستان بنانے کے بجائے ہر دوسرا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ہم متاثرین دنیا ہیں۔ ہاں! ہم ایک کام میں دنیا کی مثال نہیں بننا چاہتے۔ اور وہ قیادت کا بہترین کردار ہے۔ ترکی ہو یا ایران، ہندوستان ہو یا ’’مغربی کافرستان‘‘ وہاں کی سیاسی قیادت نے گدھوں کی طرح اپنے ملک کا ماس نوچ نوچ کر اپنے پیٹ نہیں بھرے۔ انھوں نے بد عنوان یا پیسوں کے بھوکے مافیا کو اپنے ممالک پر سوار نہیں کیا۔ اور تو اور اب تو ہندوستان جیسے ملک میں بھی بدعنوانی کے خلاف کھڑے ہونے والے منتخب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ان ممالک کے سربراہان نے اپنے ملک کے خزانے دوسروں کے ہاں گروی نہیں رکھے۔ اثاثے باہر منتقل نہیں کیے۔ لوگوں کو مسلسل دھوکہ نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اردگان کا ترکی بنانے والے کیا خود اردگان جیسے ہیں۔ اور پھر اردگان کو بلانے سے ہم اس سرزمین پر کیا جادو جگا پائیں گے۔

جس دن یہ محترم مہمان پاکستان میں تشریف لائے اس دن اسلام آباد میں صرف ایک امام بارگاہ کے تحفظ کے لیے تین ہزار سیکیورٹی فورسز تعینات کی گئی تھیں۔ بڑے شہروں میں فون بند، سڑکیں بند، تعلیمی ادارے بند، کاروبار نیم بند، اور ہر طرف خوف و ہراس کی فضا طاری تھی۔ ان حالات میں ترکی کا خواب ایسا ہی جیسا ایران، سعودی عرب، دبئی، چین، واشنگٹن اور پیرس بننے کا خواب ہے۔ قوموں کی ترقی قیادت کی انتھک جہدوجہد سے منسلک ہے۔ جنہوں نے ملک بنانے اور قومیں سنوارنی ہوتی ہیں وہ کام کر کے قائد اعظم کی طرح بستر سے لگ جاتے ہیں۔

وہ اپنے کاروبار یا معاش کی فکر نہیں کرتے۔ وہ غرور یا گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوسروں کی نقل نہیں کرتے۔ پاکستان کو طرح طرح کے رنگوں میں ڈبونے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود رہیں گے جو ہر پھل دار درخت کے قریب جھونپڑی جما لیتے ہیں۔ جس در سے دانے ملتے ہیں اس کے سامنے پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔ ملک کو بھکاری بنا دیا ہے۔ ذہنی خانہ بدوشی کو قومی کردار کا حصہ بنا دیا ہے۔ نقل مارنے والے کب عقل مند ہوتے ہیں ۔

پاکستان کو سیدھے راستے پر ڈالنا ہے تو اپنے حالات کے مطابق تدبیر کرنی ہو گی۔ کسی دوسرے کی طرف کیوں دیکھیں۔ جنہوں نے اس ملک کو بنایا ان کا انداز ہی اپنا لیں۔ محنت کر لیں، دیانت دار ہو جائیں۔ خود داری اپنائیں۔ اپنی پیٹ پوجا بند کریں۔ اپنے بچوں کی چھوڑیں قوم کے بچوں کا سوچیں۔ دنیا میں کسی ایسی قوم نے اپنا لوہا نہیں منوایا جو مسلسل خود فریبی کا شکار ہو۔ اور اس سے بڑی خود فریبی کیا ہو گی کہ ہم دوسروں کے دامن میں چمکنے والے ستاروں سے اپنے آسمان کو دمکانے کی کوشش کریں۔ مگر یہ سمجھے گا کون۔ آج کل تو سب ترکی ترکی کھیل رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔