ڈرون حملوں کے سیاپا فروش

نصرت جاوید  بدھ 25 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ڈرون حملوں کے حوالے سے ہمارا میڈیا اور تمام سیاستدان کئی برسوں سے سیاپا فروشی فرما رہے ہیں۔ مگر گزشتہ بدھ کی شام سے شمالی وزیرستان میں بہت کچھ ہوا ہے۔ بڑی لگن اور خلوص سے میں نے اس ضمن میں حقائق جاننے کی بہت کوشش کی۔ اپنے سارے اخبارات کے ساتھ 24/7 ہمیں پل پل کی خبر دینے کے دعوے داروں کو بھی غور سے دیکھا اور سنا۔کئی غیر ملکی اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کو بھی چھان مارا۔ کئی دنوں تک پھیلی اس تلاش کے باوجود میں یہ کالم لکھتے وقت تک وہ کچھ نہ جان پایا جس کی بنیاد پر شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعات کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ صرف حقائق بیان کر سکوں۔

اسلام آباد میں بیٹھ کر اندازہ بس اتنا ہوتا ہے کہ بدھ کی شام ایک فوجی چیک پوسٹ پر متعین جوانوں پر بارود سے بھرے ایک ٹرک کے ذریعے اس وقت حملہ ہوا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ زخمیوں اور ہلاک شدگان کو جائے حادثہ سے باہر لانے کے لیے جو لوگ گئے ان پر بھی حملہ کر دیا گیا۔ جواباً وہاں متعین جوانوں نے دہشت گردوں کی تلاش شروع کر دی۔ 30 سے زیادہ لوگ اس آپریشن میں مارے گئے۔ ISPR نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مارے جانے والوں میں دس ازبک دہشت گرد بھی شامل تھے۔

جمعے کو قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن کے آخری اجلاس میں لیکن فاٹا سے تعلق رکھنے والے دو اراکین نے یہ دعویٰ کیا کہ شمالی وزیرستان کے دوسرے بڑے شہر میر علی میں ’’فوجی آپریشن شروع‘‘ کر دیا گیا ہے۔ بھاری توپوں کے ذریعے جو بم برسائے جا رہے ہیں، وہ گھروں، بازاروں اور دو ہوٹلوں میں ٹھہرے مسافروں کو بے دریغی سے ہلاک کر رہے ہیں۔ یہ بھی دعویٰ ہوا کہ مرنے والوں میں چند عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

شمالی وزیرستان کی یہ کہانی جن اراکین نے سنائی ان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے نہ تھا۔ ایک مولانا تو بلکہ حکومتی اتحاد کی ایک اہم جماعت جمعیت العلمائے اسلام سے تعلق رکھتے تھے۔ جو کہانی ان اراکین نے سنائی وہ کافی پریشان کن تھی۔ حکومتی وزراء کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان دیتے۔ حال ہی میں وزارت دفاع بھی حاصل کر لینے والے خواجہ آصف تو ہال میں موجود نہ تھے۔ مگر چوہدری نثار علی خان اپنی پوری آن کے ساتھ وہاں موجود تھے۔

انھیں اس روز قومی اسمبلی میں کئی روز تک امن و امان کے مسئلے پر جاری بحث کو سمیٹنا بھی تھا۔ وہ اپنی تقریر کا آغاز شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعات کے ذکر کے ساتھ بھی کر سکتے تھے۔ ایسا مگر ہر گز نہ ہوا۔ وہ تقریر کرنے کے بجائے یہ شکوہ کرنے کھڑے ہوئے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین ابھی بھی اس بات پر بضد ہیں کہ وہ ان سے معافی مانگیں۔ بدھ کو انھوں نے جوشِ خطابت میں تحریک انصاف کو ’’تماشے‘‘ لگانے کا طعنہ دے دیا تھا۔ سید خورشید شاہ اس لفظ کے استعمال پر چراغ پا ہو گئے۔ ’’تماشا‘‘ ان کی نظر میں صرف پتلیوں کا ہوتا ہے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے معزز اراکین پُتیلیاں نہیں ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان کا ایک شہری ہوتے ہوئے جس کا رزق خبر کے شعبے پر منحصر ہے مجھے یہ بات طے کرنے میں ہرگز کوئی دلچسپی نہیں کہ ’’تماشا‘‘ ایک غیر پارلیمانی لفظ ہے یا نہیں، شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعات یقیناً اس قصے سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ ان واقعات پر مشتمل ایک لمبی داستان دو معزز اراکین اسمبلی نے ’’آن دی ریکارڈ‘‘ بیان کی تھی۔

چونکہ ان کی سنائی داستان کی سرکاری طور پر قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر کسی وزیر نے تردید نہیں کی تو محض ایک پیشہ ور صحافی ہوتے ہوئے میں اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوں۔ اخبارات کے عام قاری بھی اس داستان کو حقیقت ہی سمجھیں گے۔ اس داستان کو اخباروں میں پڑھنے کے بعد جو لوگ انٹرنیٹ کا باقاعدہ استعمال کرتے ہیں ان تصاویر کو بھی حقیقی سمجھتے ہوں گے جو طالبان کے ترجمانوں نے فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعات کے بارے میں پھلائیں۔ ان کی بتائی داستان اور تصویروں کے غلط ثابت کرنے کی سرکاری سطح پر کوئی کوشش مجھے تو نظر نہیں آئی۔

شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعات کے بارے میں اگر میرے جیسا اپنے تئیں پھنے خان بنا رپورٹر کنفیوژڈ ہے تو پاکستان کے عام شہریوں کو دوش کیوں دیں اگر ان کی ایک کثیر تعداد غیر سرکاری داستان پر اعتبار کرتی محسوس ہو۔ اس غیر سرکاری داستان کو جھٹلانے کا صرف ایک طریقہ تھا اور وہ یہ کہ صحافی اپنے طور پر میر علی پہنچ کر حقائق اکٹھا کرتے۔ شمالی وزیرستان آپ مگر وہاں کے رہائشی نہ ہوتے ہوئے سرکاری اجازت کے بغیر جا ہی نہیں سکتے۔ سرکار اجازت دے تو اس کے بندے آپ کو سیکیورٹی کے خدشات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں میر علی کا کوئی رہائشی آپ کو سچ بتانا پسند نہیں کرے گا۔ فرض کریں میر علی کے عام شہری غیر سرکاری داستان کو جھٹلانے والی باتیں کر بھی دیں تو کسی رپورٹر کی ایک اچھی خبر ضرور بن جائے گی۔ مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ سچ بتانے کے بعد وہ رہائشی زندہ بھی رہ سکے گا یا نہیں۔

اب یہ بات کھلے دل سے مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ شمالی وزیرستان ہماری ریاست کی دسترس میں ہرگز نہیں۔ پاکستان کے صحافیوں کی وہاں تک پیشہ وارانہ رسائی کے امکانات بھی تقریباَ معدوم ہیں۔ مگر جیسے ہی کوئی ڈرون شمالی وزیرستان کے کسی علاقے پر کوئی میزائل گرا دیتا ہے تو ہم اپنی خود مختاری کی دہائی مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ عمران خان کی سیاسی سوچ سے اختلاف کریں یا اتفاق۔ ایک بات مگر اب طے ہو چکی ہے اور وہ یہ کہ تحریک انصاف کے سربراہ ایک زبردست Campaigner بن چکے ہیں۔ وہ کوئی مسئلہ اٹھائیں تو بڑی رونق لگا دیتے ہیں۔ آج کل وہ مہنگائی ختم کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ذرا فرصت ملے تو اپنی پسند کے صحافیوں کا وفد لے کر میر علی بھی ہو آئیں تا کہ ہم لوگوں کو کم از کم شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعات کا پورا علم ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔