ریل کا رومانس

غلام محی الدین  بدھ 25 دسمبر 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

زندگی میں پہلی مرتبہ ریل پرلاہور سے کوئٹہ جانا ایک ایسا تجربہ تھا جو زندگی کی حسین یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ حسن اور حیرت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں‘ یہ ممکن نہیں کہ حسن آپ کو حیرت زدہ نہ کر دے۔ ریل میں میرے سفر کا کینوس صرف گوجرانوالہ اور لاہور کے درمیان آنے جانے تک محدود تھا۔ پہلا طویل سفر میں نے لاہور سے کوئٹہ تک کیا۔ میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ میرا یہ سفر مجھ پر حیرتوں کے اتنے در وا کرے گا۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ ہوائی جہاز کے تیز رفتار سفر کے برعکس ریل پر سفر ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے جیسے مسافر کوئی دلچسپ البم کے صفحے پلٹ کر دیکھ رہا ہو۔ یہ سفر دھیرے دھیرے اپنے اسرار اور خوبصورتیاں آپ پر کُھولتا چلا جاتا ہے۔

اس میں بستیاں گزرتی ہیں۔ جنگل گزرتے ہیں‘ صحراؤں سے واسطہ پڑتا ہے‘ پہاڑوں سے گزر ہوتا ہے‘ موسم بدلتے ہیں‘ رات اور دن کے مختلف پہر اپنا الگ رنگ دکھاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس سفر کے دوران جب گاڑی سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں پھیلے ہوئے زردی مائل مٹیالے چٹیل میدان میں گھنٹوں رینگتی رہی تو مجھے کامل تنہائی کے کیسے احساس سے گزرنا پڑا تھا۔ گاڑی کے پہیوں کی چرچراہٹ کے باوجود ایک گہری خاموشی آپ کے ذہن پر مسلط ہو جاتی ہے۔ اس دوران ایک اور بات نے بہت متاثر کیاکہ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں اس پٹڑی کو بچھانے والے کتنے باعزم اور ہمت والے لوگ تھے۔ اس ویرانے میں بھی تمام راستے پر ان انتظامات کی شہادتیں موجود تھیں جو انسانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ سبی سے آگے بڑھیں تو چڑھائی کا آغاز ہوتا ہے۔ یوںمحسوس ہوتا ہے جیسے انجن تھکاوٹ کے احساس سے ہانپنے لگا ہے۔

’’آب گم‘‘ اسٹیشن کے بعد چڑھائی اتنی تیکھی ہے کہ اگلے انجن کو اپنے پیروں پر قائم رکھنے کے لیے ایک انجن گاڑی کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا، جس سے کھینچنے کی قوت دوگنا ہو جاتی تھی۔ پہاڑوں سے گھرے ہوئے اس راستے پر دو انجنوںکی گہری سانسوںکی گونج ایک عجیب تاثر پیدا کرتی ہے۔ یہاں پر ایک اور بات پہلی مرتبہ مجھ پرآشکار ہوئی کہ دوانجنوں کی طاقت فراہم کرنے کے باوجود اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں بریک فیل نہ ہو جائیں، تو اس بات کا تدارک انجینئروں نے ’’CATCH SIDINGS‘‘ کیچ سائیڈنگز بنا کر کیا۔ یہ ایک ایسا انتظام ہے جس کے تحت زیادہ تیکھی چڑھائی کے مقامات پر مین لائن سے ایک لائن نکال کر کسی پہاڑی ڈھلان پر چڑھا دی گئی ہے۔ایسے مقامات پر ایک کانٹے والا گاڑی گزرنے کے وقت مستعد اور تیار کھڑا رہتا ہے۔ اگر خدانخواستہ گاڑی کی بریک فیل ہوں اور گاڑی واپس لڑھکنے لگے تو کانٹا بدل کر اسے اُس لائن پر چڑھا دیا جاتا ہے جو ڈھلان پر چڑھائی گئی ہے، یوںریل کی رفتار ٹوٹ جائے گی اور وہ اس ڈھلان پر چڑھ کر واپس ہموار جگہ پر آ رکے گی۔

راستے میں اسٹیشنوں پر بنی انتظار گاہیں‘ اپنی تعمیر‘ فرنیچر اور دیگر سہولیات کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں لیکن یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ان کی جو چمک دمک اور شان و شوکت ہوا کرتی ہو گی اب قصہ پارنیہ بن چکی ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ برطانوی دور میں مسافروں کی سیٹوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی پاکٹس بنی ہوتی تھیں۔ مسافر ان پاکٹس میں اپنے ٹکٹس رکھ دیتے تاکہ اگر وہ سو رہے ہوں تو ٹکٹ چیکر اُسے بیدار کیے بغیر ٹکٹ چیک کر لے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں ریل کا جو نظام قیام پاکستان کے بعد ملا تھا ہم نے اس کے معیار کو انھی خطوط پر مزید ترقی دینے کے بجائے اُسی شکست و ریخت اور تباہی کا شکار بنا دیا جس کا نشانہ ہمارے تمام ادارے اور خود معاشرہ ہوا۔ ہمیں ریل کا جو نظام ملا تھا اس میں جو پوٹیشنل تھا اس کے امکانات کو دریافت کرنے کے بجائے ہم نے اسے محدود کرنے پر توانائیاں صرف کیں۔ اور اب ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو ہر مسئلے کا حل نج کاری تجویز کرتے ہیں۔

مجھے ہمیشہ ریل کے ذریعے سفر کرنا پسند رہا۔ جن دنوںہماری ریلوے اپنے بدترین دور سے گزر رہی تھی ان دنوں بھی میں اس اُمید پر ریل میں سفر کرتا رہا کہ معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ لیکن پھر ایک واقعہ نے مجھے ریل سے بالکل مایوس کر دیا۔ ہوا یوں ک میں نے راولپنڈی جانا تھا۔ میں پچھلی رات صرف چند گھنٹے سو پایا تھا۔ اگلی صبح میں 7 بجے ریل کار میں سوار ہوااور اپنی سیٹ لمبی کر کے سو گیا۔ خیال یہ تھا کہ چند گھنٹے سو جاؤں تو تازہ دم ہو جاؤں گا۔ قریب تین گھنٹے بعد آنکھ کھلی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں سے کھڑکی سے باہر دیکھا توکوئی پلیٹ فارم تھا۔ پہلا خیال یہ گزرا کہ ریل پہنچ چکی اور میں سو رہا ہوں۔ جس ڈبے میں میں تھا خالی پڑا تھا۔ میں فوراً اُٹھ کر باہر نکلا تو پتہ چلا کہ گاڑی لاہور کے اسٹیشن پر ہی کھڑی ہے‘ یعنی روانہ ہی نہیں ہوئی۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ انجن نہیں ہے۔ کراچی سے کوئی گاڑی آنے والی ہے ریل کار کے ڈبے اس گاڑی سے منسلک کر کے روالپنڈی روانہ کیے جائیں گے۔ اس دن میں شام 5 بجے راولپنڈی اُترا۔ اس روز کے بعد میں ریل پر سوار نہیں ہوا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد بتدریج ریل کے معاملات بہتر ہونے لگے ہیں۔ جس طرح ریل پر میرا اعتماد بحال ہوا ہے لازم ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس طرف مائل ہو رہے ہیں۔

میں نے اس عرصہ کے دوران جنتی مرتبہ بھی ریل پر سفر کیا ٹرین لیٹ نہیں ہوئی۔ یہ بات درست ہے کہ اکنامی کلاس کے ڈبوں کی حالت خراب ہے لیکن گاڑیوں کے آنے جانے میں جو نظم و ضبط ضروری ہوتا ہے وہ واپس لوٹ رہا ہے۔ شیخ رشید احمدکی وزارت کے دور میں ریل کا نظام بہت بہتر ہوا۔ بعد میں غلام احمد بلور کے دور میں وہ تباہی ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ اب خواجہ سعد رفیق کے دور میں ایک مرتبہ پھر تیز رفتار بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسائل کی کمی اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت ہے لیکن ہمارے ہاں اس کو اپنی بے عملی کو چھپانے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اگر کپتان اچھا ہو‘ اخلاص اور محنت پر یقین رکھتا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ واقعی کسی ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں سنجیدہ ہو تو بہتری کا آغاز کرنے کے لیے فوری وسائل فراہم کرنے کا تقاضا محض بہانے کے سوا کچھ نہیں۔

ایسے لوگ تاریخ میں گزرے ہیں جنہوں نے وسائل کی کمی کا رونا رونے کے بجائے خود وسائل پیدا کرنے کی راہ اپنائی۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اور رویے پر اعتراضات اور تنقید کے ہزار جواز موجود ہوں گے لیکن اس بات میںکوئی شبہ نہیں کہ پاکستان ریلوے کے وزیر نے اسے بحالی کی پٹڑی پر چڑھا دیا ہے اور اس بات کی اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ ریلوے کو ایک ایسا ادارہ بنایا جا سکتا ہے جسے صحیح معنوں میں ماضی کی عظیم روایات کا وارث قرار دیا جاسکے۔ اور لوگ ریل سے وابستہ اُس رومانس کے سحر کو محسوس کر سکیں جو دنیا بھر میں بے مثال ادبی فن پاروںکی تخلیق کا باعث بنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔