انتخابی اصلاحات کی کوشش، مثبت پیش رفت

ایڈیٹوریل  جمعرات 19 نومبر 2020
بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کا اعلان خوش آئند ہے۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کا اعلان خوش آئند ہے۔ فوٹو: فائل

ہم ایسا صاف شفاف انتخابی نظام چاہتے ہیں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اگلے انتخابات کو صاف شفاف بنانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ لانے کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کا اعلان خوش آئند ہے۔ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اگر اس روایت کو ختم کرنا ہے تو انتخابی اصلاحات پر فوری طور پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ آئین کے تحت دیانتدارانہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، لیکن اس ذمے داری کی انجام دہی انتخابی قوانین کے تابع ہے جو ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے ہیں۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ عوامی خواہشات اور آئینی تقاضے وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں، جب تک انتخابی اصلاحات کا عمل مکمل نہیں ہو گا، اس وقت تک الیکشن کا عمل تنقید کا نشانہ بنتا رہے گا، موجودہ صورت حال جوں کی توں رہے گی، لہٰذا اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے بھی سسٹم لا رہے ہیں، ایسا ماحول چاہتے ہیں کہ ہارنے والا شکست تسلیم کرے۔

انھوں نے انتخابی اصلاحات کے لیے ملک کی باقی سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا آئین میں ترمیم کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ وزیر اعظم کے خیالات صائب ہیں، ان کی سچائی سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی نظریں چرائی نہیں جا سکتیں کہ ہمارے ہاں لیڈرز کے چناؤ کا طریقہ کار بدلنے میں نہ تو حکومت سنجیدہ نظر آتی ہے نہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی اپوزیشن۔ سیاسی الزام تراشی کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور بلند ہوتا ہے، کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں آج تک نہ تو تمام ووٹرز کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور اس حوالے سے کبھی اقدامات ہی نہیں کیے جا سکے کہ ہمارا ووٹنگ ٹرن آؤٹ 40 فیصد سے آج تک بڑھا کیوں نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں ووٹر ٹرن آؤٹ ہی چالیس فیصد ہو، یعنی 60 فیصد عوام اس سسٹم کو ہی پسند نہ کرتے ہوں اور نہ گھر سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہوں تو وہاں کی سیاسی جماعتوں اور قائدین کا کیا حال ہوگا۔

دنیا کے جمہوری نظام کو سامنے رکھنا اور اس کی مثبت باتوں کی پیروی کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن نہ جانے کیوں ہم نے کبھی اس ضرورت کو اپنے اوپر لازم نہیں کیا۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ میں ووٹ نہ ڈالنے والے کو بی کلاس شہری کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یعنی بی کلاس شہری ہونے کا مطلب آپکو بینک لون، لائسنس اور دیگر مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ اسلامی ملک ایران میں آپ نے اگر ووٹ نہ ڈالا ہو تو اس حوالے سے آپ جوابدہ ہوتے ہیں کہ ووٹ کیوں نہیں کاسٹ کیا۔ فرانس میں گزشتہ انتخابات میں فرانس میں 17 فیصد عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔ تو یہ خبر فرانس کے بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر چھپی۔ جب ہم اپنے انتخابی نظام پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہمیں انتہائی فرسودہ اور جدید عہد کے تقاضوں سے عاری نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر پی ٹی آئی حکومت چاہتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈز کا طریقہ کار اپنایا جائے کیونکہ یہ کرپشن روکنے کا بہترین طریقہ ہے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے کہہ دیا ہے کہ سینیٹ اصلاحات پر ہم حکومت سے بات نہیں کریں گے۔

اپوزیشن کا موقف ہے کہ پاکستان میں صرف شو آف ہینڈ سے کام نہیں چلتا۔ الیکشن کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے موقف میں اختلاف سہی، لیکن یہ بھی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو بھی اصلاحات کرنی ہیں وہ پارلیمنٹ کے ایوان میں ہوں جو سب سے بڑا آئینی فورم ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ اگلا الیکشن بشمول آزاد کشمیر اور سینیٹ الیکشن ایسا ہو کہ ہارنے والا ہار تسلیم کرے۔ پچھلے سینیٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے کے الزام میں ہم نے اپنے 20 ارکان صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکالا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں ہمارے ساتھ مل کر اس بل کو پاس کرائیں۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی،2013 کے انتخابات پر ساری سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے تھے۔ (ن) لیگ نے بھی کہا تھا کہ سندھ میں دھاندلی ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے اسے آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا۔ ہم نے چار حلقے کھولنے کے لیے کہا اور دھرنا دیا۔ 1970 کے انتخابات شفاف تھے جن میں جو ہارے تھے انھوں نے اپنی شکست تسلیم کی تھی۔

وزیر اعظم نے دل کی ساری باتیں کر دی ہیں یقینا وہ چاہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کو جلد از جلد ممکن بنایا جائے، وہ نظام میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں، لیکن پاکستانی آئین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے انھیں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جب تک اپوزیشن تعاون نہیں کرے گی اس وقت تک انتخابی اصلاحات کا خواب ادھورا رہے گا، فی الحال ایسے امکانات بھی معدوم ہیں کہ اپوزیشن مذاکرات پر راضی یا آمادہ ہو، کیونکہ ابھی تو اپوزیشن کی تحریک چل رہی ہے۔

یادش بخیر، 2013 کے الیکشن ہوئے تو اپوزیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن اصلاحات لائی جائیں۔ پارلیمانی کمیٹیاں بنائی گئیں، چار حلقے کھولے گئے، عدالتی کمیشن بنا، جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ چند اداروں سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں۔ پھر معاملہ ٹھنڈا ہو گیا اور خدا بھلا کرے پاناما لیکس والوں کا۔ پھر 2016 میں سب اپوزیشن اسی کے پیچھے لگ گئی اور الیکشن اصلاحات ’’کھٹائی‘‘ میں ڈال دی گئی۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور عوامی فورمز پر ہونے والے بحث مباحثے کے باوجود انتخابی اصلاحات نہیں لائی جا سکیں، نہ ہی احتساب کے قوانین میں کوئی تبدیلی ممکن ہوئی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جولائی 2014 میں انتخابی اصلاحات کے لیے بننے والی پارلیمانی کمیٹی نے 90 روز میں اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کرانی تھی اور اس کمیٹی میں اپوزیشن سمیت حکومتی اراکین شامل تھے، مگر کمیٹی کی میٹنگز تسلسل سے نہ ہو سکیں۔

حیرت یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کو اب تک الیکشن کمیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں 316 سفارشات مل چکی تھیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اگر ہم پاکستان کے تمام الیکشنز کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہارنے والوں نے کشادہ دلی سے کبھی ہار نہیں مانی ہے، یعنی سیاسی جماعتوں اور قائدین میں اسپورٹس مین اسپرٹ کی واضح کمی نظر آتی ہے، قوم تو یہ سوال کرنے پر مجبور نظر آتی ہے کہ یہ سلسلہ کب ختم ہو گا اور اصلاحات انتخابات سے قبل ممکن بھی ہوں گی یا نہیں، اس بارے میں فی الحال یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

یہاں پر ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا شفاف انتخابات کی راہ میں بڑی رکاوٹ محض انتخابی اصلاحات کا نہ ہونا ہے؟ اگر ملک میں منصفانہ انداز میں انتخابی اصلاحات ہو جائیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابی اصلاحات ہماری انتخابی سیاست کی اولین ضرورت ہیں، ایک خود مختار اور مستحکم الیکشن کمیشن کی قوم کو اشد ضرورت ہے، لیکن یہ سوال زیر بحث رہنا چاہیے کہ دھاندلی سے پاک انتخابی عمل میں اصل رکاوٹ انتخابی اصلاحات ہیں یا یہ فرسودہ سیاسی نظام اور اس سے وابستہ سیاسی، انتظامی اور قانونی ادارے؟ کیونکہ ابھی جو انتخابی نظام ہمارے پاس موجود ہے اس کے قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہم نے نظام کو جان بوجھ کر کمزور بنایا ہوا ہے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر نظام کمزور ہو گا تو ہم اس کی مدد سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکیں گے۔

اس لیے مسئلہ حکمران طبقات کی ترجیحات کا ہے، اگر ملک میں اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی کا نظام ہو گا اور قانون طاقتور افراد کے سامنے بے بس ہو گا تو ادارے شفافیت کے نظام کو قائم کرنے میں ناکام رہیں گے۔ اس لیے اچھی انتخابی اصلاحات کا عمل براِہ راست اداروں کی خود مختاری اور شفافیت سے جڑا ہوا سوال ہے۔ مسئلہ محض الیکشن کمیشن کی خودمختاری تک محدود نہیں، بلکہ انتخابات کے انعقاد سے وابستہ تمام سیاسی، انتظامی اور قانونی اداروں کو ساتھ جوڑ کر ہی ہم ایک شفاف انتخابی نظام قائم کر سکتے ہیں۔

انتخابی شفافیت اور الیکشن میں گڑبڑ کے حوالہ سے بھارتی مبصرین نے امریکی الیکشن کمیشن اور حکام کو کہا ہے کہ وہ حالیہ امریکی الیکشن کے انعقاد میں بھارت کے خود مختار، موثر اور مستحکم نظام سے استفادہ کر سکتے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے 2020 کے انتخابات میں بدترین بے قاعدگیوں کے الزامات لگائے گئے، ووٹرز کے نام غائب ہوئے، سیاہ فاموں اور اقلیتوں کے دور افتادہ پولنگ اسٹیشنز قائم نہیں ہوئے، امریکا کے163سالہ پرانے جریدہ ’’اٹلانٹک‘‘ نے ایسے کئی اقدامات، انتخابی جعلسازی اور بدترین انتظامات کی نشاندہی کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یاد رہے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا شمار ان عالمی انتخابی مبصرین میں ہوتا ہے جنھیں دنیا کے مخدوش ممالک میں انتخابات کے جائزے پر نوبیل کا امن انعام دیا گیا تھا، وہ بھی حالیہ امریکی الیکشن میں ہڑبونگ پر ششدر رہ گئے۔ بلاشبہ ان واقعات کے پیش نظر وفاقی حکومت کا نیاانتخابی پروگرام درست سمت میں ایک صائب سیاسی فیصلہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔