معافی مانگ! بہن جی سے

سعید پرویز  بدھ 25 دسمبر 2013

فجر کی نماز کے بعد نوجوان مولوی عمران پانچ دس منٹ حدیث نبوی بیان کرتے ہیں۔ آج انھوں نے بیان فرمایا کہ اﷲ کے نزدیک یہ عمل ہر گز ہرگز اچھا نہیں ہے کہ مالک اپنے غلام یا ملازم کی تضحیک کرے، رسوا کرے، ذلیل کرے، اسے گالم گلوچ سے مخاطب کرے، ایسے فعل کا مرتکب شخص ہر گز جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ مولوی حدیث نبوی کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’اکثر مالکان کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب اور گھر آئے مہمانوں کے سامنے اپنے ملازمین کی تذلیل کرتے ہیں، بلاوجہ انھیں قصور وار ثابت کرتے ہیں، انھیں نا سمجھ، بے وقوف اور جاہل کہتے ہیں، حتیٰ کہ گندی گالیوں سے بھی دریغ نہیں کرتے اور ملازمین کی عزت نفس کو پامال کرتے ہیں۔ یہ مکروہ فعل اﷲ کے نزدیک انتہائی درجے برا ہے۔ ایسا شخص خواہ کتنا ہی عبادت گزار ہو، نمازی ہو، حاجی ہو، زکوٰۃ خیرات دیتا ہو، سب کچھ بے کار ہے اگر اس کا سلوک اپنے ملازمین سے اچھا نہیں ہے۔‘‘

مولوی عمران کا بیان جاری تھا اور مجھے اپنے گھر کا ایک واقعہ یاد آ رہا تھا میں اس واقعے کو کبھی کبھی اپنے دوست احباب و عزیز و اقارب کے ساتھ بھی شیئر کرتا ہوں۔ یہ بات ہے 1970-71 کی ان دنوں ہمارے بھائی حبیب جالبؔ چوک سنت نگر لاہور میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ مقیت منزل نامی بلڈنگ کی پہلی منزل کے چوبارے میں بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ گھر محض تین چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا۔ جس کے کمروں کی کھڑکیاں گلی اور بازار میں کھلتی تھیں۔ اسی گھر سے مشتاق مبارک بھائی (حبیب جالبؔ سے بڑے بھائی) کا جنازہ اٹھا تھا۔ یہ 27 جولائی 1969 تھا جس دن بھائی مشتاق کا میو اسپتال لاہور میں انتقال ہوا تھا۔ بھائی مشتاق مبارک مرکزی محکمہ اطلاعات و مطبوعات میں ڈائریکٹر تھے اور اردو کے ممتاز شعراء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

اسی گھر میں بھائی حبیب جالبؔ کے پلے پلائے بارہ سالہ بیٹے طاہر عباس کا انتقال ہوا تھا۔ یہ اپریل 1976 تھا جب طاہر عباس ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوا تھا۔ یہی گھر تھا جسے مرحوم طاہر عباس کے دسویں والے دن ایف ایس ایف کی جیپوں میں سوار اہلکاروں نے گھیر کر شاعر کو گرفتار کیا تھا اور اسے حیدرآباد سندھ پہنچایا تھا۔ جہاں شاعر کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ارکان ملک بھر سے گرفتار ہوکر پہنچائے جا رہے تھے۔ خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل، گل خان نصیر، ہاشم غلزئی، قسور گردیزی، لطیف افغانی، افضل خان، خیر بخش مری، شیر محمد مری، عزیز اﷲ شیخ ایڈووکیٹ و دیگر ان سب کو حیدر آباد جیل میں جمع کر دیا گیا اور جیل کے اندر ہی عدالت لگتی تھی جس پر جالبؔ صاحب نے برسر عدالت یہ غزل پڑھی تھی جس کا مطلع تھا۔

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں، ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے

یادیں ہیں کہ امڈی جلی آ رہی ہیں۔ پھر جنرل ضیاء نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور فوج پھر آ گئی تمام سابقہ حکمرانوں کی طرح جنرل کی بھی خواہش تھی کہ حبیب جالبؔ حکومت کے ساتھ مل جائے۔ جنرل کا خیال تھا کہ بھٹو نے جالبؔ کو حیدرآباد جیل میں ڈالا تھا۔ بغاوت کا مقدمہ تھا اور میں نے ٹریبونل توڑ کر سب کو رہا کر دیا ہے جنرل ضیا کے پاکستان ٹیلی ویژن سے پروگرام ’’ظلم کی داستانیں‘‘ دکھایا جاتا تھا۔ حکومت کی ایماء پر PTV کا عملہ اپنے ساز و سامان لیے جالبؔ کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔PTV والوں کا کہنا تھا ’’بھٹو نے آپ پر بھی بہت ظلم کیے ہیں۔ آپ ان مظالم کو ریکارڈ کروا دیں اور جواباً جالب ؔ PTV والوں کو منع کر دیتے تھے اور انھیں کہتے تھے کہ ’’تم کون ہو مجھ سے یہ بات کرنے والے، چلو بھاگ جاؤ، مجھ پر بھٹو نے کوئی ظلم نہیں کیا‘‘ بڑے چھوٹے سیاست دان جن میں پیپلز پارٹی والے بھی شامل تھے جنرل کے پروگرام ’’ظلم کی داستانیں‘‘ کی نذر ہو گئے مگر جالبؔ کا یہی گھر تھا جہاں اس نے یہ شہرہ آفاق نظم لکھ کر جنرل ضیاء کی حکومت کو للکارا تھا۔

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا

اور پھر اسی گھر سے جنرل ضیا کی حکومت نے جالبؔ کی گرفتاریاں شروع کر دیں، ایم آر ڈی کی تحریک بھی شروع ہو گئی تھی۔ جیل بھرو تحریک تھی اور کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ میاں محمود علی قصوری، اعتزاز احسن، نوابزادہ نصر اﷲ خان، سی آر اسلم، سردار شوکت علی، شعیب ہاشمی (فیض صاحب کا داماد) اداکار محمد علی، سبھی تھے۔ جنرل ضیاء نے کچھ دن گزر جانے پر جیل میں معافی نامہ بھجوایا کہ جو دستخط کر دے وہ رہا ہو کر گھر چلا جائے، میاں محمود علی قصوری نے جان بوجھ کر معافی نامہ جیل میں بند جالبؔ کو بھجوایا، جالبؔ نے معافی نامے کا جواب دیا۔

دوستو! جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو، رہائی نہ مانگو

یہی مقیت منزل سنت نگر والا گھر تھا جہاں سے ہماری بھابی (بیگم ممتاز جالبؔ) اپنے شوہر حبیب جالبؔ سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل گئی تھیں۔ شوہر سے ملاقات ہوئی تو جیل کے کارندے بھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اب بھابھی گھر کے حالات اشارے کنائیوں میں بیان کر رہی ہیں اور جالبؔ بھی محض ہوں، ہاں کر رہے ہیں، وہ اپنے کسی دوست کا نام بھی نہیں لے سکتے تھے کہ اس کے پاس چلی جاؤ، اس سے کچھ پیسے لے لو، مگر جالبؔ مجبور کہ کسی دوست کا نام لیا تو پولیس اسے پکڑ لے گی۔ جالبؔ صاحب نے ’’ملاقات‘‘ کے عنوان کے تحت غزل لکھی، مطلع تھا:

جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا، ملاقات کہاں تھی

جنرل ضیا نے معافی نامہ رد کرنے کی پاداش میں جالبؔ کو میانوالی جیل بھیج دیا۔ ان کے ساتھ سابق آئی جی پولیس راؤ رشید، جہانگیر بدر اور پروفیسر امین مغل بھی تھے۔ جیل میں ان چاروں کو اس سیل میں رکھا گیا جہاں پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اسیری گزار چکے تھے۔ میانوالی ہی وہ جیل ہے جہاں دوران اسیری جالبؔ کے جسمانی اعضا، گردے، جگر، پتا، پھیپھڑے تیزی سے خراب ہوئے اور بات اختتام تک پہنچی۔بات شروع ہوئی تھی مولوی عمران کے درس سے کہ اپنے ملازمین کے ساتھ اچھا سلوک خدا کو پسند ہے، تو اسی مقیت منزل والے گھر میں یہ واقعہ پیش آیا تھا جو میں دراصل بیان کرنا چاہتا تھا کہ یادوں نے گھیر لیا۔ واقعہ یوں تھا کہ گھر میں فضلہ وغیرہ اٹھانیوالی جمعدارنی ایک دن ناغے کے بعد آئی تو ہماری بھابی نے اسے ڈانٹتے ہوئے برا بھلا کہا۔

صبح دس بجے کا وقت تھا قریبی چار پائی پر جالبؔ یونہی آنکھیں بند کیے لیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے جب اپنی بیوی کو جمعدارنی سے سخت لہجے میں بات کرنا سنا تو وہ یکدم چار پائی سے اٹھے اور اپنی بیوی کے منہ پر زوردار چانٹا مارا اور نہایت غیظ و غضب کے عالم میں بیوی سے کہا ’’معافی مانگو بہن جی سے‘‘ اور پھر خود بھی اس سے معافی مانگتے ہوئے کہا ’’بہن جی! میں بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں، آپ ہمیں معاف کر دیں‘‘ پھر جب وہ جمعدارنی چلی گئی تو جالبؔ صاحب نے اپنی بیگم سے کہا ’’تمہیں پتا ہے! یہ جو کام کرتی ہے یہ در اصل ہمارا کام ہے، بتاؤ تم یا میں گھر کا فضلا اٹھا کر باہر کھیتوں میں پھینکنے جا سکتے ہیں؟ یہ ہمارے محسن ہیں، ہمیں خصوصاً یہ کام کرنیوالوں کا بہت احترام کرنا چاہیے۔ ان کے سامنے نظریں نیچی رکھنی چاہیے۔ نرم لہجہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ تھی حبیب جالبؔ کی سوچ! اﷲ کے نیک بندوں کی سوچ ایسی ہی ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔