قرضوں کا بوجھ اور جی ڈی پی کی شرح

ایم آئی خلیل  جمعرات 19 نومبر 2020

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملکی قرضے اور واجبات 44.8 ٹریلین روپے کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ قرض کا حجم رواں مالی سال کی جی ڈی پی کے 98.3 فیصد کے مساوی ہے۔

اگر اس شرح کو ہم دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ کیونکہ قرض کا حجم جتنا زیادہ ہوگا، چاہے وہ گزشتہ حکومتوں نے لیے ہوں لیکن ادائیگی کے ذمے داروں کے نام کے طور پر پاکستانی عوام ہی لکھوایا جاتا ہے۔ آخر اس کا بوجھ تو پاکستانی عوام پر ہی پڑتا ہے۔

انھیں ہی ٹیکس بھی دینا ہوتا ہے۔ پھر ڈالر کی طلب بڑھتی ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھاتے ہیں۔ اب آئی ایم ایف نے عندیہ دیا ہے کہ پہلے بجلی گیس کے نرخ بڑھائیں پھر مزید قرض دینے کی بات ہوگی۔ اگر جی ڈی پی کی بات کریں تو قانوناً یہ طے ہے کہ قرض جی ڈی پی کی 60 فیصد کے برابر کی اجازت ہوگی لیکن یہاں پر تو 98 فیصد تک پہنچنے کا مطلب خطرے کی گھنٹی کب کی بج چکی تھی۔ سابقہ حکومت جب جا رہی تھی تو انھوں نے پانچ سالہ اعداد و شمار پیش کیے تھے۔ مطلب یہ کہ پانچ سال میں ہم کیا کرکے جا رہے ہیں۔ عموماً ایک سال کے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔

سابقہ حکومت کی معاشی ٹیم یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ پانچ سال کے دوران ملک کے ذمے کل قرض کی مقدار 14 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 21 ہزار ارب روپے ہوئی۔ یعنی اس کی مقدار میں 50 فیصد اضافہ کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ اس دوران ملکی معیشت کے حجم میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔ جو 22 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 34 ہزار ارب روپے ہوگئی۔

اگرچہ پانچ سال کے دوران معاشی حجم میں یہ اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا تاہم اضافہ تو ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جو بیان شامل ہوا کہ اس کا مطلب ہے کہ جی ڈی پی کی شرح کی مناسبت سے ملک پر قرضوں میں پچھلے پانچ سالوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ سب اعداد و شمار کا کھیل ہے اور الفاظ کی جادوگری بھی تھی۔ لیکن سابقہ دور حکومت کے مالیاتی خسارے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ درآمدات کا حجم ہوش ربا اعداد و شمار کو چھو رہا تھا۔ خسارہ دگنا ہو چکا تھا۔ حکومت اس بات کو کنٹرول کرنے سے عاری تھی۔

اس کی وجہ یہ بتاتے رہے کہ درآمدات دگنی ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ بہرحال نئی حکومت کے قیام کے بعد اس جانب فوری توجہ دی گئی کہ درآمدات کا حجم کم سے کم کیا جائے تاکہ تجارتی خسارے کو کم کیا جاسکے۔ یہ صورتحال تھی کہ تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہو رہا تھا کہ برآمدات کی مالیت سے بھی کہیں آگے بڑھ چکا تھا۔ فی الحال صورتحال تبدیل ہے اور مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ کم قرض لینے کے باوجود ملکی قرضے ملکی جی ڈی پی کے 98 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران قرض اور واجبات میں 3.3ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم قرض میں اضافے کی رفتار نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ یہ بات اگرچہ خوش آیند ہے لیکن ستمبر کے آخر تک مجموعی سرکاری قرض اور واجبات 44.8 ٹریلین روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔ جب کہ یہ بھی بتایا گیا کہ 44.8 ٹریلین روپے کے قرض اور واجبات رواں مالی سال کے متوقع جی ڈی پی حجم 45.6 ٹریلین روپے کی 98.3 فیصد کے مساوی ہے۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے سرکاری قرضہ پالیسی میں عالمی اصلاحات تجویز کی ہیں جن کا مقصد شفافیت لانے کے ساتھ جن ملکوں کو قرضہ دیا جاتا ہے ان ملکوں کو دیے جانے والے رعایتی قرضوں کی شرائط میں رد و بدل کرنا ہے۔ اب بورڈ کے اس آگاہی دینے کا اصل مقصد کیا ہے۔

وہ نئی امریکی انتظامیہ کے آنے پر ہی واضح ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی نہج کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق امریکا کی طرف سے بھارت پر توجہ دی جا رہی ہے۔ چونکہ چین بھارت تنازع بھی موجود ہے لہٰذا اس تناظر میں بھارت امریکا کو اپنا ہمنوا بنا چکا ہے۔ نئے امریکی صدر کی آمد سے قبل ہی ایران کے وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ مثبت رہا۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں اضافے کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

آیندہ چل کر پاک ایران گیس لائن منصوبہ جو ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے۔ اس پر بھی پیش رفت کی فوری ضرورت ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود ایران بھارت آئل ٹریڈ چل رہی تھی اور ترکی کو بھی پائپ لائن کے ذریعے گیس پہنچائی جا رہی تھی۔ پاکستان کو گیس کی اشد ضرورت بھی ہے۔ لیکن گیس کے حصول سے قبل نرخوں کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان کو گیس مہنگی نہ پڑے۔ اگر امریکا طالبان معاہدے میں کوئی تعطل پیدا ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔

یہاں مقصد یہ ہے کہ آئی ایم ایف والے کہہ رہے ہیں کہ رعایتی قرضوں کی شرائط میں رد و بدل کرنا ہے۔ فی الحال شنید یہ ہے کہ بجلی گیس کی قیمت بڑھانے کی شرط ہوگی۔ آخر بجلی کے نرخ کتنے بڑھاتے چلے جائیں گے، اس کا فوری اثر مہنگائی پر ہوتا ہے۔ ہر شے کی قیمت بڑھے گی۔ اور لاگت میں اضافہ ہوگا۔ اس بات کی بھی توقع کی جا رہی ہے کہ کچھ آرڈرز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اگر یوٹیلیٹیز کے بلز میں اضافہ ہوتا ہے تو لاگت بڑھنے پر آرڈرز کی تکمیل کھٹائی میں پڑ سکتی ہے اور برآمدات کو نقصان ہوگا۔

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا مجبوری بن چکا ہے۔ پاکستان معاشی مسائل میں گھر چکا ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جنھوں نے عالمی ادارے کی امداد لینے سے انکار کردیا۔ مثلاً کافی عرصہ ملائیشیا نے اپنے مالی بحران پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف کی امداد کو رد کردیا۔ جب کہ ان دنوں انڈونیشیا نے فنڈ کی مدد حاصل کرلی تھی اور اس کی شرائط پر عمل کیا تھا۔ جب کہ ملائیشیا نے ان شرائط کو رد کردیا تھا۔ امداد لینے کے باوجود انڈونیشیا مزید مالی بحران میں پھنس گیا اور ملائیشیا مزید ترقی کرتا چلا گیا۔ ایک نوبل انعام یافتہ معیشت دان نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے ترقی پذیر ممالک کو کم فائدہ اور زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

2001 کے بعد سے مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں قرض کا تناسب بہتر ہوتا رہا ہے۔ 2006 کی بات ہے جب مسلسل پانچویں برس مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں قرضے کا تناسب بہتر ہوا تھا۔ بلکہ قابل ذکر بات یہ تھی کہ گزشتہ دو دہائیوں کی مدت میں 2006 میں قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب 60فیصد سے کم تھا۔ جوکہ حد کے اندر تھا۔ اب چونکہ یہ دعویٰ تو کیا جا رہا ہے کہ قرض لینے کی رفتار کم ہوئی ہے۔ اگر اعداد و شمار کو مدنظر رکھا جائے تو 2007 تک تو قرض لینے کی رفتار اور حجم کم ہی رہا ہے لیکن 2008 میں جیسے ہی نئی حکومت آئی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ سخت ترین شرائط والی کڑوی گولی مل گئی۔ جس کے ساتھ ہی معیشت کا ہاضمہ روز بروز بگڑتا رہا۔ ماہرین تجویز کرتے رہے کہ سخت شرائط والے قرضوں سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔ لہٰذا ایک مرتبہ پھر قرض اصلاحات کے نام سے پرویز مشرف دور حکومت میں جو تجاویز پیش کی گئیں تھیں ان کو مدنظر رکھا جائے۔

ہمیں ملکی معیشت کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے اگر قرض لینا ہے تو فضول ناروا سخت شرطوں سے دور رہ کر ہی قرض لینا ہوگا۔ کیونکہ ہم بار بار کتنے تجربوں سے گزرتے رہیں گے۔ اب تو کورونا کا ہی دور چل رہا ہے۔ جس میں کاروبار نہیں، ملازمتیں نہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ غربت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کو باور کرایا جائے کہ سخت شرائط ان کے لیے ہے جن کی معیشت مضبوط ہے۔ ہماری معیشت تو انتہائی کم درج پر ہے ۔ ترقی پذیر اور غربت زدہ ملک میں بجلی گیس کے نرخ بڑھانے چاہئیں یا گھٹانے چاہئیں۔ حکومت خود بھی اس پر غور کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔