اسموگ : خطرات اور اثرات

ہوا میں مضر صحت گیس نائٹریٹ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہوتے ہیں۔فوٹو : فائل

ہوا میں مضر صحت گیس نائٹریٹ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہوتے ہیں۔فوٹو : فائل

کورونا کی دوسری لہر نے ہر خاص و عام کو پریشان کر دیا ہے۔روزانہ کیسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دوسری لہر میں زیادہ تر نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں دوبارہ سے کورونا وارڈ بنا دیے گئے ہیں جن میں مریضوں کو بھر مار ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں سموگ بھی شروع ہو گئی ہے۔ ہر دوسرے شخص کو فلو،کھانسی یا نزلہ زکام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کورونا کا بھی خطرہ بڑھ رہا ہے۔

صبح سویرے اور شام کے وقت ہر طرف دھند چھا جاتی ہے۔ Visiblility خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔ آج کل پرائیویٹ پریکٹس میں ہر دوسرا مریض ، سر درد، ناک سے پانی بہنا اور خارش، سانس میں رکاوٹ، ذرا سے چلنے سے سانس کا پھول جانا، جس میں دردیں، جسم پہ خارش اور دانے کی علامات کے ساتھ آرہے ہیں۔

اکثر مریض کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب پچھلے ہفتے سے اینٹی بائیوٹک ادویات بھی لی ہیں، الرجی دور کرنے والی بھی استعمال کی ہیں۔ مگر کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی۔ یہ سب شاخسانہ ہے آج کل زیادہ تر لاہور میں چھائی ہوئی اسموگ کا جو دھند کی ایک شکل جدید ہے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سردی ہے جس کی وجہ سے گلے کے امراض میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے لاہور کی فضاؤں میں سانس لینا دو بھر ہوتا جا رہاہے۔ سانس کی بیماری پھیلتی جا رہی ہے۔ دمہ کے مریض اس وجہ سے سخت مشکل میں ہیں۔

اسموگ کیا ہے؟ کیوں ہوتی ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ اس کے صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ان سے کیسے بچاجا سکتاہے؟ اس مضمون میں عوام الناس کی رہنمائی کے لیے ان سارے سوالوں کے جوابات دیے جارہے ہیں  تاکہ وہ اسموگ کے خطرناک اثرات سے بچنے کا بندوبست کر سکیں۔

آلودگی کی وجہ سے جونہی ٹمپریچر میں کمی ہوتی ہے تو گرم ہوا اوپر جانے کی بجائے فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ اور اس میں دھواں ، بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلنے سے پیدا ہونے والے ذرات، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہونے والی Gases اور ذرات فضا میںمعلق ہو جاتے ہیں جس سے فضا نیچے سے اوپر تک آلودہ نظر آتی ہے۔ صبح سویرے تو حد نگاہ تک فضا آلودہ اور ذرات سے معلق نظر آتی ہے۔ ہوا میں مضر صحت گیس نائٹریٹ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہوتے ہیں۔

اگرچہ لاہور اور دوسرے شہروں کی فضا پہلے سے ہی کافی آلودہ ہے۔ لیکن اکتوبر کے آخر میں اور نومبر کے شروع میں اسموگ شروع ہو جاتی ہے تو یہ فضا آلودہ ہونے کے ساتھ صحت کے لیے نہایت خطرناک بھی ہو جاتی ہے۔ اس آلودہ فضا میں سانس لینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ پچھلے دو تین سال سے اسموگ میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسموگ کا کبھی نام نہ سنا ہے۔

2016 میں اسموگ سے پاکستان اور ہندوستان کے بڑے شہر متاثر ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹروں کے مطابق راولپنڈی، لاہور، کراچی اور پشاور دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ پچھلے سال سموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔ اس سال ہندوستان کے کئی شہروں میں بھی اسموگ شروع ہوئی۔

دہلی میں انتظامیہ نے اس کا ایک حل یہ نکالا ہے کہ گاڑیوں کے چلنے کے لیے اوقات مختص کر دیے ہیں یعنی LW سیریز والی گاڑیاں صبح 7 بجے سے 10 بجے تک سڑکوں پر نہیں آسکتیں۔ اسموگ میں چونکہ مضر صحت ذرات ہوتے ہیں۔ گیس ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں سانس لینا دو بھر ہو جاتاہے جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ اسموگ کی وجہ سے سانس کی تکالیف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے دمہ کی تکلیف ہوتی ہے۔ ان کی بیماری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

چیسٹ انفیکشن کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے۔ آلودہ فضا میں سانس لینے سے طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ کسی کا دل نہیں لگتا۔ ہر وقت سر میں درد ہوتا ہے۔ آنکھوں میںسخت جلن ہوتی ہے۔ آنکھوں اور ناک سے پانی جاری رہتا ہے۔ جسم پر سرخ دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ جب مریض ان تکالیف کا ذکر کرتے ہیں تو ڈاکٹر مختلف قسم کی دوائیاں بشمول اینٹی بائیوٹک تجویز کرتے ہیں لیکن یہ دوائیں کچھ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اسموگ کے ساتھ ساتھ جونہی سردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں ، بڑوں اور بوڑھوں میں چیسٹ انفیکشن اور نمونیہ جیسے خطر ناک امراض کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اسموگ والی آلودہ فضا میں سانس لینے سے مضر اثرات ذرات اور سانس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے جراثیم جسم کے اندر جا کر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آلودہ فضا اور فضا میں سانس لینا کئی سگریٹیں پھونکنے کے برابر ہے کیونکہ دونوں کے مضر اثرات تقریباََ ایک جیسے ہوتے ہیں۔

آبادی میں بے پناہ اضافے، جگہ جگہ فیکٹریوں کی بھر مار اور ان سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے سموگ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور شہروں میں درختوں کی کٹائی اور مضافات میں جنگلوں کے خاتمے کی وجہ سے بھی اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حاملہ عورتوں کو اسموگ کے دنوں میں گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اسموگ اور سردی میں مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرات اور بد اثرات سے بچاجا سکتاہے۔

٭اسموگ کے دوران اگر Visibility  خطرناک حد تک کم ہو تو اس دوران ڈرائیونگ سے پرہیز کیا جائے۔

٭گاڑیوں میں اسپیشل اسموگ لائیٹس کا لگانا ضروری ہے۔

٭اسموگ کے دنوں میں منہ اور ناک پر Mask کا استعمال آلودگی سے بچاتا ہے۔ آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کالے شیشے کی عینک استعمال کریں۔ ماسک کا استعمال نہ صرف آپ کو سموگ سے بچائے گا بلکہ اس سے آپ کورونا سے بھی محفوظ رہیں گے۔

٭صبح سویرے گرم پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر چائے کی طرح چسکیاں لے کر پیئں۔ اس سے آپ کے گلے کے انفیکشن سے محفوظ رہیں گے۔

٭جب بھی باہر سے آئیں تو آنکھوں اور چہروں کو ٹھنڈے پانی سے دھوئیں۔

٭اسمو گ کے دنوں میں مچھلی کے تیل کے کیپسول ضرور لے لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح سویرے زیتون کے تیل کا ایک چمچ لے لیں تو اس سے آپ کا نظام تنفس آلودگی سے بچا رہے گا۔ اسموگ کی وجہ سے ہونے والی علامات میں مختلف قسم کی اینٹی بئیوٹک اور دواؤں کے بے جا استعمال کاکوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ادویات کے بے جا اور مخیر ضروری استعمال سے بچیں۔

٭صبح شام لیمن گراس قہوہ استعمال کریں۔

٭سردیوں میں اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے ڈرائی فروٹ استعمال کریں۔ گرما گرم چائے کے ساتھ میوے والا گڑ یا گرما گرم سوجی کا حلوہ بھی صحت کے لیے مفید ہے۔

٭اسموگ کے دوران اور سردیوں میں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو اچھی طرح کور کر کے رکھیں کیونکہ سردی کے اثرات بچوں پہ زیادہ ہوتے ہیں۔

٭حکومت کے لیے ضروری کہ حکومت پر 2017 میں جو Smog commission  بنایا گیا جاتا ہے جس میں اینٹوں کے بھٹوں فیکٹریوں اور گاڑیوں کے لیے 17 سفارشات دی گئیں تھیں۔ ان تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تا کہ اسموگ کے خطرات سے مناسب حد تک بچا جا سکے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سفارشات پر عمل کریں۔ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی دو ماہ کے لیے بند رکھا جانا چاہیے۔

٭اسموگ کے خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ زیادہ درخت لگانے سے فضا میں الودگی کم ہو گی اور اسموگ میں بھی کمی ہوگی۔

٭عوام الناس کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اسموگ کے خطرات سے بچاؤکے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور جابجا کوڑا اور فصلوں کا بھوسہ چلانے پر پابندی لگائی جائے۔ اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

فصلوں کا بھوسہ جلانے سے سموگ کے ساتھ Visibility زیرہ ہو جاتی ہے۔ جس سے جاں لیوا حادثات ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں  موٹروے سے فصلوں کی باقیات جلانے کے باعث کئی جاں لیوا حادثات ثابت ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔