ذیابیطس: تعارف، احتیاط اور علاج

پروفیسر محمد افضل میاں  جمعرات 19 نومبر 2020
ذیابیطس کے شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے

ذیابیطس کے شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے

ذیابیطس یا شوگر کا شمار دنیا میں تیزی سے بڑھنے والے امراض میں کیا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اگلے 25 سالوں میں یہ تعداد دوگنا ہو جائے گی۔ امریکن ذیابیطس ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ امریکہ میں دو کروڑ نوے لاکھ افراد کو یہ مرض لاحق ہے، اِن میں سے 80 لاکھ مریضوں میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوئی۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق جنوبی ایشیا کا شمار ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ذیابیطس کے مریض تیزی سے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ صرف پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005ء کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ذیابیطس کے مریض جلد ہی دل اور گردوں اور آنکھوں کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی صحت کو ناقابل تلافی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

ذیابیطس ایک مستقل رہنے والی بیماری ہے۔ اس پر موثر کنٹرول کے لیے محتاط غذا، منصوبہ بندی، باقاعدہ ورزش یا ادویات کا استعمال ضروری ہے۔ اس مرض میں خون میں گلوکوز /شوگر مطلوبہ حد سے بڑھ جاتی ہے اور ایسا لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون ’انسولین‘ کے متاثر ہونے سے ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق انسولین کی یہ کمی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ایک لبلبے سے انسولین کی پیداوار ہی کم یا ختم ہو جاتی ہے، دوسری لبلے سے انسولین تو پیدا ہوتی رہتی ہے، لیکن کسی وجہ سے اس کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو انسولین کی بے اثری بھی کہا جاتا ہے۔

یہ معلوم ہے کہ گلوکوز / شوگر ہمارے خون کا انتہائی لازمی اور مستقل جزو ہے۔ہم اپنی خوراک میں جتنی بھی نشاستہ دار غذائیں استعمال کرتے ہیں وہ ہماری آنتوں میں جا کر شوگر میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہی شوگر بعد میں خون میں شامل ہو جا تی ہے۔ ہمارے جسم کے اکثر اعضا اسی شوگر کو ایندھن کی طرح استعمال کر کے توانائی حاصل کرتے ہیں اور اگر خون میں شوگر موجود نہ ہو، یا بہت زیادہ کم ہو جائے تو ان اعضا کا کام متاثر ہوتا ہے۔ ایک نارمل انسان کے خون میں شوگر کی مقدار قدرت کی طے کی ہوئی حدوں کے اندر ہی رہتی ہے جبکہ ذیابیطس کی حالت میں شوگر نارمل حد سے بڑھ جاتی ہے۔

ذیابیطس سے متاثر افراد میںمندرجہ ذیل علامات ہو سکتی ہیں، لیکن یاد رکھیے کہ ذیابیطس کی حتمی تشخیص کے لیے خون میں گلوکوز / شوگر کی مقدار چیک کرانا لازمی ہے۔ اگر کسی شخص کے خون میں شوگر مقررہ حد سے زیادہ ہے، تو شوگر کی کوئی علامت ہو یا نہ ہو، اْسے ذیابیطس ہو چکی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص میں ذیابیطس کی تمام علامات پائی جائیں، لیکن خون میں شوگر نارمل ہے تو اْسے ذیابیطس ابھی نہیں ہوئی۔

درج ذیل علامات ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا کسی ایک یا زائد علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ذیابیطس کی علامات

تھکاوٹ کا احساس، بھوک اور پیاس میں اضافہ، پیشاب کی زیادتی، ہاتھوں یا پیروں کا سن ہونا یا جھنجھناہٹ، انفیکشن کا با ر بار ہونا، بینائی میں دھندلاپن، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا، خشک کھردری جلد/خارش، جنسی مسائل وغیرہ ۔

ذیابیطس ٹائپ 1میں تو اس کی علامات تقریباً ہر مریض میں ہوتی ہیں ، لیکن ٹائپ 2کے مریضوں میں اکثر یہ علامات موجود نہیں ہوتیں۔ تھکن ،کمزوری جیسی غیر مخصوص علامات یا ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے آثار ان مریضوں میں غالب ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات کسی اور وجہ سے خون میں گلوکوز کا ٹیسٹ ہوتا ہے تو ذیابیطس کا علم ہوتا ہے۔

ذیابیطس کی درج ذیل دو اقسام ہیں:

ذیابیطس ٹائپ 1:  یہ بچپن یا اوائل عمری میں ہوتی ہے، اس میں انسولین قدرتی طور پر جسم میں کم پیدا ہوتی ہے ، اس کا علاج انسولین کے بغیر ممکن نہیں۔

ذیابیطس پائپ 2:  یہ ذیابیطس کی عام قسم ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں دس میں سے کم از کم نو ٹائپ 2 میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ عموماً بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے۔ ذیابیطس کی اس قسم میں جسم میں بننے والی قدرتی انسولین مؤثر طور پر استعمال نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے خون میں گلوکوز /شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

ذیابیطس ٹائپ 2 زیادہ تر ان افراد کو ہوتی ہے جو زیادہ وزن رکھتے ہوں یا موٹاپے کا شکار ہوں،  جن کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی ذیابیطس ہو، جو عمومی طور پر جسمانی حرکت اور ورزش سے گریز کرتے ہوں، وہ خواتین جنہوں نے 9 پانڈ سے زائد وزن کے بچے کو جنم دیا ہو یا جنھیں دوران حمل ذیابیطس ہو چکی ہو، ان میں مستقل طور پر ذیابیطس کا مرض ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ذیابیطس کا مرض اگر کئی سال کنٹرول میں نہ رہے تو جسم کے اہم حصوںکومتاثرکرنے کا باعث بنتا ہے۔ دل کی شریانوں کی تنگی ، دل کے دوروں (ہارٹ اٹیک) کا باعث بنتی ہے۔ فالج، اعصاب کی کمزوری (ہاتھ پاؤں کا سن ہونا)، آنکھوں میں پردہ بصارت کا متاثر ہونا ، گردوں کی کمزوری اور زخموں کے سبب پاؤں کا ناکارہ ہونا ذیابیطس کی پیچیدگیوں میں شامل ہیں۔

خون میں گلوکوز کی مقدار کو نارمل رکھنا ذیابیطس کے علاج کا بنیادی اصول ہے۔ خون میں گلوکوز(بلڈ شوگر) کو مستقل کنٹرول رکھنے سے مرض کے عمومی مسائل سے نجات ملتی ہے اور پیچیدگیوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

درج ذیل تین طریقوں سے ذیابیطس کا علاج کیا جاتا ہے۔

1۔ خوراک میں تبدیلی اور جسمانی ورزش (فربہ افراد کا وزن کم کروانا)

2۔ کھانے والی ادویات

3۔ انسولین کے ٹیکوں کا استعمال

ذیابیطس ٹائپ 1کا علاج تو انسولین کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن ذیابیطس ٹائپ 2کی اکثریت میں غذا کی پرہیز،جسمانی ورزش کا اور کھانے والی ادویات کے استعمال سے خون میں گلوکوز کنٹرول ہو سکتا ہے۔ ان ذرائع سے اگرذیابیطس کنٹرول نہ ہو تو انسولین کے استعمال کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔

معالج کی ہدایات کے مطابق غذا کے پرہیز، ادویات کے باقاعدہ استعمال اور بلڈگلوکوز کے مقررہ مدت کے بعد ٹیسٹوں کے ذریعے مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے اور ذیابیطس کی طویل المیعاد پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

ذیابیطس کے شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیاں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر جب بھی ذیابیطس کا مریض کسی بھی وائرس کا شکار ہو تو اس میں اس کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں، اس بناء پر موجودہ حالات میں ذیابیطس کے مریضوں کو کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔

اگر ذیابیطس کا مریض گلوکوز کی مقدار کو کنٹرول میں رکھتا ہے تو اس سے وہ نہ صرف طبیعت کی خرابی سے بچا رہے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے کورونا سے متاثر ہونے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ کورونا یا دیگر قسم کے وائرل انفیکشن سے بچاؤ کے لیے انسانی جسم اور قوت مدافعت کا مضبوط ہونا شرط اولین ہے جبکہ ذیابیطس یا دیگر بیماریاں جسم کو اس طرح کے انفیکشن سے لڑنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ (بحوالہ امریکن ذیابیطس ایسوسی ایشن)

ذیابیطس کے مریضوں کے کورونا سے بچاؤ کی عمومی احتیاطوں بشمول ماسک پہننے، دوسروں سے کم از کم 6 فٹ کا فاصلہ رکھنے کے علاوہ ان امور پر بھی خصوصی دھیان رکھنا چاہیے۔

اگر آپ بیمار ہوتے ہیں تو حوصلہ نہ ہاریں اور ذہنی طور پر خود کو مضبوط رکھیں۔

یقینی بنائیں کہ اگر آپ کو ضرورت کی صورت میں روابط کی تمام متعلقہ تفصیلات مہیا ہوں۔

اپنے گلوکوز کو کنٹرول میں رکھنے پر اضافی توجہ دیں۔

گلوکوز کی باقاعدگی سے نگرانی کے ذریعے ان پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے جو اس کے زیادہ یا کم ہونے کی صورت میں لاحق ہو سکتی ہیں۔

اگر آپ کو نزلہ زکام، بخار کھانسی اور سانس کی دشواری جیسی علامات درپیش ہوں تو فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

بلغم کے ساتھ کھانسی انفیکشن کی نشاندہی کرتی ہے، اس صورت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

کوئی بھی انفیکشن جسم میں گلوکوز کے لیول اور Fluids کی ضرورت کو بڑھاتا ہے، اس لیے پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔

اپنے پاس ذیابیطس کی ادویات کی موجودگی کو یقینی بنائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر آپ کو کچھ ہفتوں کے لیے سب سے الگ تھلک رہنا پڑے تو ضرورت کی تمام ادویات آپ کو میسر رہیں۔

اپنے کھانے پینے کے معمول سے غفلت نہ برتیں۔

اگر خون میں گلوکوز کی مقدار اچانک کم ہو جائے تو ایسی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے آپ کو تیار رہنا چاہیے۔

زیادہ کام کرنے سے گریز کریں اور رات کو اچھی اور پرسکون نیند لیں۔

اگر آپ تنہا رہتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیمار ہونے کی صورت میں آپ جس پر انحصار کرتے ہوں، اسے آپ کی ذیابیطس کی بیماری کا علم ہو۔ (بحوالہ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن)

پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) نے 2014ء میں ملک بھر میں فری ذیابیطس کلینکس کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک مختلف شہروں میں 20کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں تین ہزار سے زائد رجسٹرڈ مریضوں کو ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ مفت ادویات اور سکریننگ کی سہولت مہیا کیا جاتی ہے، اور عام افراد کی معلومات میں اضافے کے سیشن بھی منعقد کیے جاتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ پیما کے کونسلرز ذیابیطس کے مریضوں کو شوگر کی موجودگی میں لائف سٹائل کی تبدیلی کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں اور متوازن غذا کے بارے میں سمجھاتے ہیں۔ جن شہروں میں یہ کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں، ان میں لاہور، فیصل آباد، صادق آباد، رحیم یار خان، پتوکی، جڑانوالہ، کوٹ مٹھن، سکھر، خیرپور، ماتلی، شکارپور، گلشن حدید، کراچی، مظفرآباد اور میرپور شامل ہیں۔

( ڈاکٹر محمد افضل میاں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سابق صدر ہیں،ا ن دنوں پیما ریلیف کے انچارج ہیں۔ وہ لاہور میں بطور پروفیسر آف سرجری خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔