پی ایس ایل زندہ باد

سلیم خالق  جمعرات 19 نومبر 2020
یہی اس لیگ کی کامیابی ہے کہ ہر ٹیم آپ کو اپنی لگتی ہے، ایک ہی گھر کے مختلف لوگ الگ ٹیموں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہی اس لیگ کی کامیابی ہے کہ ہر ٹیم آپ کو اپنی لگتی ہے، ایک ہی گھر کے مختلف لوگ الگ ٹیموں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

’’بیٹا یہ چاکلیٹ لے لو، اچھا کولڈ ڈرنک پیو گے‘‘

پی ایس ایل کا فائنل ختم ہونے کے بعد میں ایک جنرل اسٹور گیا تو وہاں یہ منظردیکھا کہ ایک صاحب  زاروقطار رونے والے بچے کو چپ کرانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’اس کی ٹیم لاہور قلندرز ہار گئی اس کا غم منا رہا ہے‘‘ آپ کا تعلق لاہور سے ہے؟ میں نے ان سے پوچھا ’’نہیں بھائی ہم تو پیدائشی کراچی والے ہیں‘‘ یہ ان صاحب کا جواب تھا،یہ سن کر میں مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تو آگے دیکھا کہ کراچی کنگز کی جیت پر چند لڑکے خوشیاں منا رہے تھے۔

پی ایس ایل زندہ باد، یہی اس لیگ کی کامیابی ہے کہ ہر ٹیم آپ کو اپنی لگتی ہے، ایک ہی گھر کے مختلف لوگ الگ ٹیموں کو سپورٹ کرتے ہیں، لاہوروالوں کو کراچی اور کراچی والوں کو لاہور کی ٹیم پسند ہو تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، بلاشبہ یہ لیگ گذشتہ چند برسوں میں سامنے آنی والی پاکستان کی سب سے بڑی برانڈ ہے، کورونا کی وجہ سے  پلے آف میں شائقین اسٹیڈیم نہ آ سکے لیکن فائنل کے وقت سب  ٹی وی کے سامنے اپنی نشستوں سے جڑے بیٹھے رہے۔

بدقسمتی سے فیصلہ کن معرکہ اتنا دلچسپ ثابت نہیں ہوا جتنی توقع کی جا رہی تھی،ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں شائقین چوکے چھکے دیکھنا پسند کرتے ہیں، پی سی بی کو بھی بیٹنگ کیلیے سازگار پچ تیار کرانا چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوا،ایسا لگتا تھا کہ کسی نے کراچی کنگز خصوصاً بابر اعظم کو ذہن میں رکھ کر پچ بنوائی، لاہور قلندرز کے پاس کئی پاور ہٹرز موجود ہیں سب کے ہاتھ بندھے نظر آئے، اننگز کے درمیان میں ہی بابر اعظم  نے کمنٹیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’یہاں پاور ہٹر نہیں کرکٹنگ شاٹس کھیلنے والے بیٹسمین ہی کامیاب ہوں گے‘‘ گیند بیٹ پر درست انداز میں نہیں آ رہی تھی، لاہورقلندرز کی بدقسمتی رہی کہ وہ پچ کا درست اندازہ نہ لگا سکے، ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کر لی کہ بڑا  اسکور بنا کر حریف کو دباؤ میں لائیں گے مگر یہ پلان چوپٹ ہو گیا۔

بابر اعظم اس وقت عالمی ٹی20رینکنگ میں دوسری پوزیشن پرموجود ہیں، انھیں آپ جہاں بھی کھلا دیں کامیاب رہتے ہیں، ان پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ میچ فنش نہیں کر پاتے،مگر بابر نے  کراچی کی مشکل پچ پر ذمہ دارانہ اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو فتح دلائی،کراچی کنگز کے پاس اگر بابر اعظم نہ ہوتے تو شاید وہ ٹائٹل نہ جیت پاتی، ایونٹ کے دوران مجموعی طورپر اچھی کرکٹ کھیلی گئی، سب سے بڑی بات یہ رہی کہ تمام میچز پہلی بار پاکستان میں ہوئے، وزیر اعظم عمران خان نے جو کہا تھا وہ پورا ہوگیا، جب تک کراؤڈ کو آنے کی اجازت تھی بڑی تعداد اسٹیڈیمز آئی۔

سیکیورٹی ایجنسیز نے بہترین انتظامات کیے۔ اس ایونٹ سے غیرملکی ٹیموں کا اعتماد بھی بڑھ گیا، اس کا اندازہ انگلینڈ کا آئندہ برس ٹیم پاکستان بھیجنے پر آمادگی سے لگایا جا سکتا ہے، کراچی کنگز نے ٹائٹل تو جیت لیا لیکن وہ صرف 3 ماہ ہی دفاعی چیمپئن رہ پائیں گے، اس کے بعد چھٹا ایڈیشن شروع ہو جائے گا،پلے آف میچز کا انعقاد دشوار دکھائی دے رہا تھا لیکن کمرشل معاہدوں کی وجہ سے پی سی بی ایونٹ کو ایسے ہی ختم نہیں کرسکتا تھا،اس لیے کورونا کے دنوں میں خطرہ مول لے کر ایونٹ مکمل کرایا،پی ایس ایل5 کا آغاز اتنا اچھا نہیں تھا، پہلے عمر اکمل کا کرپشن کیس سامنے آ گیا، پھر افتتاحی تقریب پر سوال اٹھے، البتہ آہستہ آہستہ معیار بہتر ہونے لگا،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم پہلے راؤنڈ کی مہمان ثابت ہوئی۔

اس نے شیڈول پر سخت اعتراض کیا تھا، اسلام آباد یونائٹیڈ بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکی، ڈیرن سیمی کے بغیر پشاور زلمی کیلیے دوسرا راؤنڈ اچھا نہ رہا، کئی عمررسیدہ کرکٹرز پر مشتمل ملتان سلطانز کی ٹیم ابتدا میں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست رہی مگر پلے آف میں کھلاڑی آف کلر دکھائی دیے،لاہور قلندرز گذشتہ چاروں ایڈیشنز میں آخری نمبر پر رہے تھے مگر اس بار فائنل کھیل لیا جو بڑی بات ہے، عاقب جاوید کو جب ٹیم کی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے تو اب کامیابیوں کا کریڈٹ بھی دیں۔

ٹیم نے سہیل اختر کو کپتان بنانے سمیت کئی نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے کے جراتمنداہ فیصلے کیے جس پر وہ داد کی مستحق ہے، کراچی کنگزکی فتوحات میں گوکہ بابر اعظم کی شاندار بیٹنگ کا اہم کردار رہا مگر ہم عماد وسیم کو نظرانداز نہیں کر سکتے جنھوں نے عمدگی سے قیادت کے فرائض نبھائے۔ ہم نجم سیٹھی کو جتنا بْرا بھلا کہیں مگر ان سے یہ کریڈٹ نہیں چھین سکتے کہ پی ایس ایل انھوں نے ہی شروع کرائی تھی۔

اسی طرح ایونٹ کا خواب ذکا اشرف نے دیکھا تھا، موجودہ بورڈ  کے سامنے اب سب سے بڑا چیلنج اگلے ایڈیشن کا انعقاد ہے، فرنچائزز سے خراب تعلقات کے سبب کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوا جیسے خدانخواستہ اگلا ایڈیشن ہو ہی نہیں سکے گا، خاص طورپر جب معاملہ عدالت میں گیا تو خدشات بڑھ گئے تھے، گوکہ اب فریقین مذاکرات کر رہے ہیں مگرخطرہ ابھی ٹلا نہیں، یہ لیگ کتنی کامیاب ہے اور آگے ہو سکتی ہے اس کا اندازہ سب کو حالیہ میچز دیکھ کر ہو چکا،اسے خراب نہیں کرنا چاہیے۔

سابق بورڈ حکام کے کام کو موجودہ آفیشلز نے آگے بڑھایا، اسے اب مزید ترقی دلانا ہے، اگر لڑتے جھگڑتے رہے تو لوگ کہیں گے کہ ایک کامیاب برانڈ کو موجودہ بورڈ نے تباہ کر دیا،یقیناً یہ لوگ ایسا نہیں چاہیں گے،میرے پاس  تمام6 فرنچائزز کے  اکاؤنٹس کی تفصیل موجود ہے جس کے مطابق واقعی انھوں نے اربوں روپے نقصان برداشت کیا،کوئی بھی کاروبار صرف کسی ایک پارٹنر کو منافع دے کر نہیں چل سکتا، بورڈ حکام کو ایسا فنانشل ماڈل بنانا چاہیے جس سے فرنچائزز کے آنسو پونچھے جاسکیں ، یہ ہماری لیگ ہے، اسے بڑی محنت سے اس مقام تک لایا گیا ہے،اب بجائے زوال کا شکار کرنے کے مزید ترقی دلانا چاہیے، پی ایس ایل ہماری کرکٹ کیلیے بڑا تحفہ ثابت ہوئی ہے اس کی قدر کریں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔