ایک مفرورکواجازت دی تو تمام ملزمان کوآن ایئر جانے کا حق دینا ہوگا ، اسلام آباد ہائیکورٹ

ثاقب بشیر  جمعرات 19 نومبر 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ میں اشتہاری ملزمان کی تقریر نشر کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی(فوتو، فائل)

اسلام آباد ہائیکورٹ میں اشتہاری ملزمان کی تقریر نشر کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی(فوتو، فائل)

 اسلام آباد ہائیکورٹ نے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تقاریر نشر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی اشتہاریوں کی تقاریر نشر کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نےایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ آپ ریلیف کس کے لیے مانگ رہے ہیں؟ جو آپ مانگ رہے ہیں اس حکم کا کسی کو تو فائدہ ہوگا؟ پرویز مشرف کیس میں پہلے ہی ہم فیصلہ دے چکے ہیں۔ مشرف کیس میں کہہ چکے ہیں کہ کسی مفرور کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ حالیہ برسوں میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عدلیہ کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا، یہ بہت سنجیدہ سوال ہے،درخواست گزار بتا دیں کہ کس کے لیے ریلیف چاہ رہے ہیں؟ اور پیمرا نے کس پر پابندی عائد کی ہے؟ یہاں پر موجود درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں۔ اس آرڈر سے 2 لوگ متاثر ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے یہ کہا کہ دو نہیں ہزارواں افراد متاثر ہیں۔ان کی بات پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو متاثرہ فریق ہے وہ پیمرا کے حکم کےخلاف اپیل کرسکتا ہے،ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار کس مفرور کا انٹرویو آن ایئر کروانا چاہتے ہیں؟عدالت نے کہا کہ کیا اس طرح تو پھر تمام مفرور ملزمان کو اجازت دی جائے؟ مفرور ملزم کی تو شہریت منسوخ ہوسکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ مفرور ملزم کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کیا جاتا ہے، مفرور ملزم پہلے عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوتا ہے پھر وہ قانونی حقوق سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں،اس کیس میں مفرور ملزم خود عدالت سے رجوع نہیں کر رہے۔

عدالتی ریمارکس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کا ہمارا حق متاثر ہورہا ہے، آرٹیکل 19 اے آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مفرور ہونا بہت سنجیدہ بات ہے، اس طرح ہر مفرور چاہے گا اسے آن ایئر ٹائم دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے مفرور ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی مگر الزام عدلیہ پر لگا، عدالت پیمرا کا آرڈر منسوخ کرتی ہے تو تمام مفرور کو آن ایئر جانے کا حق ملے گا،عدالت مفرور ملزمان کو ریلیف نہیں دے سکتی۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ پیمرا کا آرڈر صحافیوں اور میڈیا پرسنز کے لیے ہے اس لیے وہ متاثرہ فریق ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پورے جوڈیشل سسٹم (عدالتی نظام) کا امتحان ہے، آپ چاہتے ہیں کہ تمام مفرور ملزمان کو ریلیف دیا جائے، کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں، آپ درخواست گزاروں سے اس سے متعلق مزید ہدایات لے لیں۔ اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہے مگر یہاں پر سوال کچھ مختلف ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست سے ریلیف تمام مفرور ملزمان کو ملے گا جو عدالت نہیں دینا چاہتی، اگر کسی کو عدالتی نظام پر اعتماد نہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے تو اسے عدالت سرینڈر کرنے تک ریلیف نہیں دیتی، اگر کوئی مفرور ہو تو وہ عدالت کا غیر قانونی آرڈر بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔

بعد ازاں عدالت نے سلمان اکرم راجا کو کہا کہ آپ کیس کی تیاری کرکے آئیں اور آئندہ سماعت پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔جس کے ساتھ ہی معاملے پر مزید سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔