- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- 4 افراد کا قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور سوتیلے بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اسلام آبادہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں خط لکھنے والے 6 ججوں کی بھی شرکت
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
- سعودیہ سے دیر آنے والی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
- بیوی کی ناک اور کان کاٹنے والا سفاک ملزم ساتھی سمیت گرفتار
- پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
- ٹریفک وارڈنز لاہور نے ایمانداری کی ایک اور مثال قائم کر دی
- مسجد اقصی میں دنبے کی قربانی کی کوشش پر 13 یہودی گرفتار
- پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، عمران خان
- 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ وکلا کی جرح مکمل، مزید 6 گواہوں کے بیان قلمبند
تارکینِ وطن کے لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھنے والا برطانوی خاندان
لندن: جنوبی لندن کے ایک گھر میں کوئی بھی دستک دے اور کہے کہ وہ کسی جنگ زدہ علاقے کا تارکِ وطن ہے تو یہاں موجود خاندان انہیں فوری طور پر بلامعاوضہ پناہ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پناہ گزین کو کھانا اور لباس بھی فراہم کرتے ہیں۔
42 سالہ ریشل مینٹیل اور ان کے 48 سالہ دوست کرس اپنے ایک بچے کے ساتھ رہتے ہیں اور جب بھی کوئی ان کے دروازے پر آتا ہے وہ اس سے کچھ بھی پوچھے بغیر اسے اپنے گھر میں بٹھاتے ہیں اور اسے اپنائیت کا احساس دیتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی وہ ان سے کہتی ہیں کہ کاش میرے پاس بہتر گھر ہوتا جس میں آپ کو رکھ سکتی۔
چند روز قبل رات کے وقت ان کے دروازے پر دستک ہوئی تو معلوم ہوا کہ کوئی مکمل طور پر اجنبی ہے جو شام سے آیا ہے۔ اسے گھر میں فوری طور پر جگہ دی گئی اور وہ بھی کسی معاوضے کے بغیر۔ اس پناہ گزین کا نام حسن عکاد تھا جوشام کی جنگوں سے بھاگ کر اپنی جان بچاکر برطانیہ پہنچا ہے۔
حسن کو کسی نے ریشیل کا پتا دیتے وقت اتنا کہا تھا کہ اس گھر کے لوگ بہت مہربان ہیں اور وہ ضرور اس کی مدد کریں گے۔ اگرچہ کسی اجنبی کو گھر میں رکھنا اور اس سے بے خبر ہوجانا ایک خطرے سے بھرپور عمل بھی ہے لیکن اب تک وہ آٹھ پناگزین افراد کو اپنے گھر میں رکھ چکی ہیں۔
کچھ دنوں بعد حسن وہاں سے چلے گئے۔ وہ ٹی وی پروڈکشن کے استاد تھے کہ انہیں شام کے مطلق العنان صدر بشارالاسد کے خلاف بولنے کے پاداش میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں گرفتار بھی کرلیا گیا۔ 2013 میں وہ دمشق سے نکلے اور 87 روز بعد یورپ پہنچے۔ 2015 میں انہوں نے بلغاریہ کا جعلی پاسپورٹ بنوایا اور بیلجیئم سے لندن پہنچے اور یہاں پناہ کی درخواست دیدی۔ اس کے بعد انہیں برطانیہ میں پناہ دیدی گئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔