اوباما کی نئی تہلکہ خیز کتاب

تنویر قیصر شاہد  ہفتہ 21 نومبر 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یوں تو سابق امریکی صدر، بارک اوباما، نے پہلے بھی تین شاندار کتابیں لکھی ہیں لیکن اُن کی تازہ تصنیف (A Promised Land) نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔

یہ کتاب، اُن کی سیاسی سوانح حیات بھی ہے اور تاریخی یادداشتیں بھی۔ اُن کی اہلیہ اور سابق خاتونِ اوّل، میشل اوباما، نے بھی دو سال قبل ایک نہایت اچھی کتاب لکھی تھی جسے بیسٹ سیلر کا اعزاز بھی ملا۔ بارک اوباما نے چند سال پہلے صرف اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے، ایک خط کی شکل میں، جب ایک کتاب لکھی تو اسے بھی بے حد مقبولیت ملی تھی ۔

اُن کی تازہ ترین کتاب 17 نومبر 2020 کو مارکیٹ میں آئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ کتاب 3نومبر2020 سے پہلے بازار میں آجاتی تو امریکی صدارتی انتخاب جیتنے والے، جو بائیڈن، شائد جیت سے ہمکنار نہ ہو سکتے کہ اس تصنیف میں کئی واقعات جو بائیڈن کے لیے نقصان دِہ ثابت ہو سکتے تھے؛ چنانچہ دانستہ اس کتاب کو تین نومبر کے بعد مارکیٹ میں لایا گیا ہے۔

سابق امریکی صدر، بارک اوباما، نے مذکورہ بالااپنی سوانح حیات (اے پرومزڈ لینڈ) میں پاکستان کی لیڈر شپ اور 2 مئی2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر حملے کا تذکرہ جس اسلوب میں کیا ہے، مجھے تو وہ اچھا نہیں لگا۔ اوباما لکھتے ہیں: ’’ مَیں القاعدہ کے رہنما کے خاتمے کا موقع قطعی طور پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔ جو کچھ ہم نے اُس وقت کیا، اس میں ہر ممکن انداز کی جارحانہ اندازکی حکمت عملی اختیار کی۔

میرے دو قریبی ساتھیوں (جو بائیڈن جو اب امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس) نے اس آپریشن کی مخالفت کی تھی‘‘۔ ’’القاعدہ‘‘کے رہنما کے خلاف کارروائی کی تکمیل کے بعد بارک اوباما نے متعدد امریکی رہنماؤں اور کئی عالمی رہنماؤں کو فون کیے۔ بارک اوباما کہتے ہیں ، اس آپریشن کی منصوبہ بندی کے مرحلے میں امریکی حکومت کے صرف چند افراد کو اس بارے میں علم تھا۔ سابق امریکی صدر کی کتاب نے کم از کم میرے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پچھلے دو عشروں کے دوران امریکا سے  پاکستان نے سب اتحادیوں سے زیادہ تعاون کیا اور اس تعاون کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔لیکن امریکا نے اس وہ قدر نہیں کی جس کے ہم حقدار تھے۔

سابق امریکی صدر، بارک اوباما، نے اپنی تازہ ترین سوانح حیات A Promised Land  میں بھارت کی کئی شخصیات اور کئی بھارتی سیاسی جماعتوں پر بھی نقد و نظر سے کام لیا ہے۔ انھوں نے جن معروف بھارتی سیاسی شخصیات کا تذکرہ مثبت اور تعریفی معنوں میں کیا ہے۔

اس بنیاد پر مخالف سیاسی جماعتیں اوباما سے ناراض ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پرانھوں نے سابق بھارتی کانگریسی وزیر اعظم، ڈاکٹر منموہن سنگھ، کی تعریف میں یہ جملے لکھے ہیں:   A chief architect of India’s economic transformation” and “a self-effacing technocrat who’d won people’s trust not by appealing to their passions but by bringing about higher living standards and maintaining a well-earned reputation for not being corrupt. سابق امریکی صدر کی طرف سے منموہن سنگھ کی تعریف و توصیف کیے جانے پر ’’بی جے پی‘‘ کے متعصب سیاستدانوں کو بڑی تکلیف پہنچی ہے ۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ بارک اوباما نے پوری کتاب میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نمایندہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کا ذکر تک نہیں کیا ہے حالانکہ اوباما صاحب نے بھارتی وزیر اعظم مودی جی کے دَور میں بھارت یاترا بھی کی تھی اور مودی سے لمبی چوڑی ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

البتہ بارک اوباما نے ’’بی جے پی‘‘ کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن منفی اسلوب میں۔ سابق امریکی صدر نے لکھا ہے کہ ’’بی جے پی کے زیر نگرانی بھارت میں اینٹی مسلم جذبات میں اضافہ ہُوا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے خلاف جو ماحول دانستہ بنایا گیا ہے، اس نے بھارت کی سیاسی فضاؤں کو مسموم کر ڈالا ہے۔ مہاتما گاندھی نے بھارت میں جس پُر امن سیاسی ماحول کا خواب دیکھا تھا، مقتدر بی جے پی کے دَور میں اسے دھچکا لگا ہے۔ ‘‘ اوباما نے کانگریسی لیڈر، سونیا گاندھی، کی شخصیت کو پُر وقار قرار دیتے ہُوئے لکھا ہے کہ وہ بولتی کم اور سُنتی زیادہ ہیں۔

بارک اوباما نے جن الفاظ میں سابق کانگریسی وزیر اعظم (منموھن سنگھ) اور سونیا گاندھی کی تعریف کی ہے اور جس سفاکی سے مودی جی کو نظر انداز کیا ہے، اس پر ممتاز بھارتی کانگریسی رہنما اور رکن پارلیمنٹ (ششی تھرور) نے اوباما کی کتاب کو سراہا ہے۔ سابق امریکی صدرنے اپنی زیر نظر کتاب میں کانگریس کے لیڈر اور اندرا گاندھی کے پوتے، راہول گاندھی، کے بارے میں دلچسپ الفاظ تحریر کیے ہیں ۔ لکھا: ’’راہول گاندھی اُس بچے کی طرح ہے جو اپنے استاد کو متاثر کرنے کے لیے دیا گیا سبق خوب محنت سے یاد کرتا ہے لیکن اُسے کتاب اور سبق سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔