شمس الفضائل وفی سراج الشمائل

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  ہفتہ 21 نومبر 2020

وہ تو کبھی اپنے بندوں کو بیمار کرتا ہی نہیں، صرف شفا دیتا ہے، بیمار تو ہم خود ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے دلوں میں بیماری، کجی، کمی اور گماں کے سکڑنے کی ایسی باریک سلوٹیں ہیں جو جبینوں پہ پڑتی تو شاید شمار میں ممکن بھی ہوتیں لیکن قلوب کی جھریاں کواکب دریاں نہیں جن کا ذکر تمتماتے چہرے کریں … ہم نے سوچ لیا کہ ہم لڑیں گے توگویا ہم لڑنے لگے حالانکہ لڑنا تو مردود شیطان سے بھی نہیں، ہاں پناہ مانگنی ہے اور یہی حکم ہے۔

ہمیں اﷲ نے اپنی عبادت اور اپنے لیے ہی سب سے توڑنے اور سب سے جوڑنے کے لیے تخلیق کیا، لڑنا ہے مگر باطل سے، حق کے مقابل ہر اس قیل، قال اور چال سے جو انکار کی طرف کھینچے… بس خیالات کے اِن ہی ادھیڑ بنوں نے اسپتال کے ایک بستر پر فکر کے جہاں نئے زاویے مرتب کیے وہیں نظریات کے وضو کا بھی رب نے مکمل اہتمام کر رکھا تھا…اور نظریات کا وضو کیا ہے؟

فضائل مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بار بار ورق گردانی، یہ بیمار ارواح کی صحت یابی کا ایک حسین نسخہ ہے جسے شمائل نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خیرہ کر دینے والی روشنی میں اطاعت کے ہاتھوں سے وفا کے خمیر سے تیار کیا جاتا ہے، بس ایک بار یہ دوا تیار ہو جائے تو پھر تم کبھی بیمار نہیں ہوتے صرف الشافی کی نادیدہ مسکراہٹ سے شفایاب رہتے ہو …

مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم جو مسجد کوفہ کے منبر پر اکثر اپنے خالق و مالک سے رو رو کر کلام فرماتے تھے اور اپنی تنہائیوں کا تمسخر اڑانے والے منافقین کے چہروں کو یاد کر کے دھوکے کے کئی روپ پہچان چکے تھے فرماتے تھے ’’میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے خدا کو پہچانا‘‘… کیا ہی سچی بات ہے، کیا ہی اچھی بات ہے، کیا ہی مولائی سوغات ہے !!! ہاں مولا علی!!! آپ نے درست فرمایا، انسان کے ارادے ٹوٹتے ہیں تب ہی وہ اپنے رب کے مزید قریب ہو جاتا ہے کیونکہ ہو گا وہی اور ہوتا ہی وہی ہے جو رب چاہتا ہے۔

ارادے سب رب کے ہیں … البتہ ہم جیسے بیکار تو ارادوں کے زاویوں کے گرد اپنی خواہش کی متغیر چار دیواری اٹھانے والے وہ نامراد معمار ہیں جو کبھی مراد کو نہیں پہنچ سکتے، اگر اپنے آپ کو مرادوں کے خالق کے سپرد نہ کیا، مولا علی! کیا خوب کہہ گئے، کیا فہم و فراست پائی آپ نے اس زبان کے چوسنے سے جس کی ان شفتانوں نے حفاظت کی کہ جس میں تسکیں بھی ہے اور تمکیں بھی! سوچا تھا اِس ماہ امام محمد بن یوسف الصالحی کی سبل الہدیٰ والرشاد کئی بار پڑھوں گا لیکن بستر پر پڑھوں گا۔

درد کا مداوا بنا کر پڑھو ں گا، تکالیف کو بہت پیچھے چھوڑ کر پڑھوں گا اور جسم کی ہر ٹیس کو بھلا کر روح کی شادابی کے لیے پڑھوں گا، یہ میرا نہیں میرے رب کا ارادہ تھا، اور میں نے اپنے ٹوٹے ارادے کی بھربھری زمین پر رب کے لہلہاتے ارادے کی سبزہ زاری میں گنبد خضریٰ کے مکیں کو سبز ہی کے سبز رنگوں کے سبزے میں سبزہ زار کی طرح دیکھ لیا، دیکھ لیا حبیب کیسا ہوتا ہے؟ دیکھ لیا طبیب کیسا ہوتا ہے؟

دیکھا تو خیر سب سے پہلے ام معبد نے تھا… نہیں جبرئیل علیہ السلام نے… نہیں! شاید اسرافیل علیہ السلام نے… نہیں نہیں!!! کسی نے نہیں دیکھا تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب تک وہ نہ چاہے کوئی اس کا محبوب نہ دیکھے؟ بھلا کوئی یوں ہی اپنا محبوب دنیا کو دکھا دیتا ہے؟ اس نے ارادہ کیا کہ ’’بس مجھے جانا جائے، میری عبادت کی جائے، معرفت کا ہر چراغ روشن ہو تو میرے لیے‘‘ سو پھر اس نے اپنی چاہت کے لیے اپنی چاہت کو اپنے بندوں کی نظروں کی چاہت کی زیارت کے حوالے کر دیا اور یوں دکھائی دیے شمائل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم!!!… حسن نظیف کو رنگ رعنا سے شروع کروں یا سر، سردار کی گھنیری زلفوں کے سرخی مائل متکلم موئے مبارک کی ابروئے پیوستہ سے ذکر سراپا کی سرگوشیاں بیان کروں؟

وسیع پیشانی پر لامبی اور باریک ابروؤں کی پیوستگی کا فسانہ چھیڑوں کہ جنھوں نے نور نبوت کو دیکھا تو ملی ہوئی پائیں اور جنھوں نے نور رسالت کو دیکھا تو کبھی جدا نظر آئیں مگر سوید بن غفلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیسے پوچھوں؟ ’’میرے آقا کے زائر! آپ نے کیسے دیکھا؟ آپ نے کیا دیکھا؟ واضح پیشانی والے، لمبی اور گھنی پلکوں والے، ملی ہوئی ابروؤں والے‘‘ ایسے ہی تھے نا میرے آقا؟ اور پھر امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت طیبہ کی کتاب کو ایک ہزار کتب سے تالیف کیا ہے اور وہ انداز اختیار کیا ہے جو کسی تصنیف میں نہیں کہ عشق کے لازوال بہاؤ میں معبود و عبد کی لکیر کو مٹنے دیے بنا فکر عبودیت سے اپنی عبدیت اور نبی کی اطاعت کو سامنے رکھتے ہوئے کہہ اٹھتے ہیں۔

’’میں کہتا ہوں امام بیہقی اور ابن عساکر نے مقاتل بن حیان رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کیا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی جانب وحی بھیجی جس میں یہ بھی تھا کہ نبی عربی کی تصدیق کرو جو وسیع پیشانی والے، ملی ہوئی ابروؤں والے ہیں‘‘… یہ ایسا ہی ہے کہ جس نے آپ کو غور (نگاہِ عشق و مستی) سے نہ دیکھا وہ سمجھتا کہ آپ اونچی ناک والے ہیں حالانکہ آپ اونچی ناک والے نہ تھے، نوری ناک والے تھے اور یہ ایک ہی ناک تھی جس پر نور چھایا رہتا، ہالہ بنا لیتا تو ناک اونچی نظر آتی جب کہ سب سے اونچے نے بنایا ہی اتنا اونچا ہے کہ نظریں یا تو جھکی کی جھکی رہ گئیں یا حیرت سے اٹھی کی اٹھی رہ گئیں…

یہ ذکر شفا کے لیے ہے، ابھی فضائل کا آغاز ہوا نہ شمائل کا تذکرہ یہ تو بستر علالت چھوڑنے کا نقطہ آغاز ہے کیونکہ جلیل کے حبیب کا علیل ذکر کرنہیں سکتے… ابھی تذکرے باقی ہیں، ہر سانس کی امانت ہے ان کا ذکر اور تذکرے یونہی نہیں ہوتے، سبب بن جاتے ہیں جب ادب کے راستے نظر آ جاتے ہیں… وقتاً فوقتاً جس جس راہ سے گزروں گا وعدہ کرتا ہوں ساتھ لے کر چلوں گا اگر پیدا کرنے والا کا یہی حکم رہا !!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔