لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزی

عبد الحمید  ہفتہ 21 نومبر 2020
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر یوں تو سارا سال بھارت کی طرف سے بغیر کسی وجہ کے بمباری ایک معمول بن گیا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے اس جارحیت میںبہت  تیزی آگئی ہے۔ 9 نومبر کو بھارتی گولہ باری سے ہمارے آزاد کشمیر کا ایک معصوم شہری  شہید ہو گیا۔

13 نومبر کو بھارتی فوج نے ایل او سی پر  تاری بند، سماہنی سیکٹر اور تے جیاں گاؤں میں پھر بلااشتعال فائرنگ کی اور مارٹر گولے پھینکے۔ شہری آبادی پر اس بھارتی بمباری سے چار شہری شہید اور بارہ افراد زخمی ہوئے۔کئی گھر جل کر مکمل طور پر خاکستر ہو گئے۔ دریائے نیلم کی خوبصورت وادی میںفائرنگ کے تبادلے میں ہماری پاک فوج کے ایک جوان نے اپنے آپ کو شہادت کے عظیم منصب پر فائز کیا اور عظیم کامیابی سمیٹی۔ اس سے پہلے بھارتی فوج کی کوشش ہوتی تھی کہ پاک فوج کے کسی بہادر کو نشانہ نہ بنائے، وہ صرف سویلین آبادی کو نشانہ بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

بھارتی فوج نے لیپا، جورا اور باغ ویلی پر بھی بمباری کا  سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ آزاد ریاستِ جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم جناب راجہ فاروق حیدر نے بھارتی فوج کی فائرنگ کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان فوری طور پر معاملے کو اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں اٹھائے، کب تک ہندوستانی فوج ہمارے نہتے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بناتی رہے گی اور کشمیری شہید ہوتے رہیں گے۔

جناب راجہ فاروق حیدر نے پاک فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جناب قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جس میں ایل او سی پر بگڑتی صورتحال زیرِ غور آئی۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 7,8 نومبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور حریت پسندوں کے درمیان ایک جھڑپ میں 4 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے جس سے بھارتی فوج کو اپنے عوام کے سامنے شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں ذلت کا سامنا کرنے پر خفت مٹانے کے لیے بھارتی فوج ایل او سی پر نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

سابقہ امریکی صدر کلنٹن نے کشمیر میں ایل او سی کو دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ قرار دیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد کشمیر کا اُس وقت تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا جب مسلم اکثریت والی اس ریاست پر بھارت نے فوج  کشی کر کے قبضہ جما لیا تھا۔ ایک سال دو ماہ تک نچلے لیول کی جنگ، اقوامِ متحدہ کی مداخلت اوربھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل روئے باؤچر اور پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کے درمیان ٹیلی گرامز کے تبادلے کے بعد ختم ہوئی۔1 اور 2 جنوری 1949 سے دونوں فوجوں نے فوجی کارروائی روک دی۔ اس جنگ بندی کے نتیجے میں ایک سیز فائر لائن کا وجود عمل میں آیا۔ 3 جولائی1972  تک اسے سیز فائر لائن ہی کہا جاتا رہا لیکن شملہ معاہدے کے بعد اسے لائن آف کنٹرول کی حیثیت دے دی گئی۔

کشمیر میں یہ لائن کوئی 800 کلو میٹر طویل ہے۔ بھارت نے 1990 میں ایل او سی کو خار دار تاروں کی ایک دہری دیوار کھڑی کر کے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1990 میں یہ دیوار بننی شروع ہوئی جس پر مختلف وقفوں کے ساتھ کام جاری رہا اور بالآخر 2004 میں آٹھ سو کلو میٹر میں سے 550 کلومیٹر پر دیوار تعمیر کر دی۔خاردار تاروں کی یہ دہری دیوار بھارتی علاقے میں 150گز اندر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ آٹھ سے بارہ فٹ اونچی ہے ۔ اس پر تین بڑی کراسنگز رکھی گئی ہیں۔ بھارت نے ایل او سی پر دیوار کے ساتھ کچھ اندر تک اپنے علاقے کو بارودی سرنگوں سے پاٹ رکھا ہے۔

بھارت ایل او سی پر بار بار اشتعال انگیزی کا کیوں مرتکب ہوتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت وادی کے اکثریتی علاقے پر قابض ہے۔ علاقے میں آبادی کم ہے۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ علاقے کو آبادی سے خالی کرا رکھا ہے اور وہ جب چاہے ایک ظالمانہ حکم کے ذریعے آبادی کو مزید دور لے جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کا علاقہ نسبتاً کم ہے اور زمین کا چپہ چپہ مقامی آبادی کے لیے قیمتی ہے۔

وہ خطرات کے منہ میں بھی اپنے علاقے کو چھوڑنے پر تیار نہیں اور ان کو کوئی قابض فوج حکم بھی نہیں دے رہی۔ آکسائی چن میں چین کے ساتھ بھارتی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھارتی فوج کو اشتعال انگیزی کا چین کی طرف سے بہت سخت جواب دیا جاتا ہے جب کہ بوجوہ پاکستانی افواج کو صبر و تحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لیے بھارتی افواج بے دھڑک ہماری طرف گولہ باری میں مصروف رہتی ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی جنگجوؤں کو کشمیریوں یعنی مقامی مسلمان آبادی سے کوئی تعلق اور ہمدردی نہیں، اس لیے بھارتی جنگجو ان لوگوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ رکھتے ہیں ۔

پاکستان کی طرف سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پر فائرنگ سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان آبادی اکثریت میں ہے اس لیے اگر وہاں گھر جلیں گے یا لوگ مریں گے تو وہ مسلمان ہی ہوں گے اور ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ہماری حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کو نقصان ہرگز نہ ہو۔ اگر ایک بھی کشمیری ہماری فائرنگ سے مارا جائے تو بھارت کو خوشی ہو گی کیونکہ جذبات پاکستان کے خلاف ابھریں گے جس سے ہم بچتے ہیں۔ ہماری افواج کے مقابلے میں بھارتی افواج کو کشمیریوں کے مرنے یا جینے سے کوئی سروکار نہیں۔ انھیں کشمیری نہیں کشمیر چاہیے۔

کشمیر تنازعے  کے شروع سے لے کر ابتک ہم نے سیکیورٹی کے حوالے سے اچھے فیصلے نہیں کیے ۔ آزاد کشمیر میں ہماری زیادہ تر سڑکیں بھارتی مورچوں کے سامنے ہونے کی وجہ سے ان کو ہماری نقل و حرکت پر نظر رکھنی بہت آسان ہے۔ ان کو کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہم یہ نہیں کر سکے کہ ان سڑکوں کو بھارتی مورچوں کے سامنے سے ہٹا کرپہاڑیوں کے دوسری طرف لے جائیں تا کہ ہماری نقل و حرکت کچھ حد تک ان سے چھُپی رہے۔

اگر آپ مظفر آباد سے نیلم ویلی کی طرف چلیں تو جلد ہی نوسہری کے مقام پر ہماری سڑک شاردا تک دشمن افواج کے سیدھے نشانے پر رہتی ہے جو بھارتی مورچوں سے صرف چند سو گز دور ہے۔ اس لیے بھارتی افواج بغیر کسی ہچکچاہٹ جب چاہتی ہیں فائر کر کے کسی مسلمان گھر ، کسی پرائیویٹ گاڑی یا پیدل چلتے آدمی کو نشانہ بناتی ہیں جس سے سڑک پر آمد و رفت کئی دنوں تک بند رہتی ہے۔ یہی حالت لیپا میں ہے۔ صرف ایک قدم اُٹھانے سے یعنی سڑک کو پہاڑی کے دوسری طرف لے جانے سے صورتحال کافی حد تک تبدیل ہو سکتی ہے۔

ہم نے ایک اور کمال یہ کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں اپنی طرف کی پہاڑیوں کو جنگلات کاٹ کاٹ کر خالی کر دیا ہے، آزاد کشمیر میں بجلی کی فراہمی پر بہت توجہ دی گئی ہے، اس لیے بجلی ہر جگہ موجود ہے۔ دن کے وقت تو ننگی پہاڑیوں پر ہر چیز واضح ہوتی ہی ہے لیکن رات کو ہر گھر میں بجلی روشنی ہو جانے سے بھارتیوں کے لیے نشانہ لینے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ اگر آ پ آٓزاد کشمیر میں کہیں بھی سفر کر رہے ہوں تو کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ کون سا علاقہ مقبوضہ کشمیر ہے۔

اگر گھنا جنگل نظر آئے اور بجلی  ناپید ہو تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ یہ مقبوضہ کشمیر کا علاقہ ہے اور اگر پہاڑ ننگے ہوں اور ہر جگہ بجلی نظر آئے تو آزاد کشمیر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایل او سی پر گہرے جنگل اور بجلی نہ ہونے سے بھارتی فوج کی نقل و حرکت دیکھی نہیں جا سکتی۔آپ ان کے کسی مورچے کی آسانی سے نشاندہی نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک وجہ ان کی طرف سے انتہائی احتیاط برتنا بھی ہے۔

وہ سیکیورٹی کے لیے ہر ایس او پی پر عمل کرتے ہیں جب کہ ہم ایس او پی کی خلاف ورزی کرنے کو جراٗت اور بہادری سے منسوب کرتے ہیں۔ بھارتی افواج کے پاس ایل او سی پر زیادہ اونچی چوٹیاں ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں ہم کم جگہوں پر بہتر پوزیشن پر ہیں۔ ایسے میں اگر ہم سیکیورٹی کے حوالے سے بہتر اقدامات اُٹھا لیں تو ان کی گولہ باری کم بھی ہو جائے گی اور جانی و مالی نقصان بھی کم ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔