حکومت سے مذاکرات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 21 نومبر 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

گلگت بلتستان کے انتخابات متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دوبارہ 2018کے انتخابات کی تاریخ دھرائی گئی اور ووٹ پھر چوری کر لیے گئے۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ انتخابات کے نتائج میں 24 گھنٹے کی تاخیر نے نتائج کو تبدیل کیا۔

بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی اکثریت کو منظم طریقہ کار سے اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں انتخابات میں بندر بانٹ ہوئی۔ گلگت کے چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان کا دعویٰ ہے کہ انتخابات صاف و شفاف ہوئے۔ پولنگ والے دن پرامن ماحول رہا، کسی جماعت یا امیدوار کو شکایت ہے تو آکر شکایت کر لے مگر ابھی تک کوئی شکایت ضابطہ کار کے مطابق نہیں ملی۔

انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی جس نے ان انتخابات کی نگرانی کے لیے مبصرین بھیجے تھے، اپنی ابتدائی رپورٹ میں انتخابی نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گلگت کے بعض حلقوں میں مخالف جماعتوں کے کارکنوں نے پولنگ اسٹیشنوں کا گھیراؤ کیا۔

انتخابی دھاندلیوں کی روایت اس ملک کے قیام کے ساتھ پڑ گئی تھی۔ 50ء کی دہائی میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار نامور مزدور رہنما مرزا ابراہیم کا مقابلہ مسلم لیگ کے مرد آہن احمد سعید کرمانی سے ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس انتخاب میں مسلم لیگ کی حکومت نے خوب دھاندلی کی اور نتائج تبدیل ہوئے۔ جھرلو پھرنے کی اصطلاح ان انتخابات میں وضع ہوئی۔ جنرل ایوب نے منظم منصوبہ بندی سے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو شکست دی۔

1970کے انتخابات کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ان انتخابات میں مداخلت نہیںکی گئی۔ 1977 کے انتخابات متنازعہ رہے۔ 9 مخالف جماعتوں کے اتحاد ، پاکستان قومی اتحاد نے بھرپور مہم چلائی۔ اس مہم کے بعد افشا ہونے والے واقعات سے پتہ چلا کہ  جنرل ضیاء الحق اس انتخابی مہم کے پیچھے تھے۔ جب وزیر اعظم بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان معاہدہ ہوا تو ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

1988سے 1999 کے دوران ہونے والے انتخابات دھاندلیوں کا شکار رہے۔ اس ملک میںایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے اپنے صدارتی عہدہ کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ریفرنڈم کرائے۔ ان صدور کے معاونین نے بعد میں اقرار کیا کہ ریفرنڈم کے نتائج طے شدہ تھے۔ پرویز مشرف نے تو اپنی کتاب میں ریفرنڈم میں دھاندلی کا خود ہی اقرار کر لیا تھا۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کی۔ انھوں نے چار حلقوں کو کھلوانے کے لیے جلسے جلوس کیے اور پھر اسلام آباد میں دھرنا دیا، یہ دھرنا چھ ماہ تک جاری رہا، پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے تحقیقات کیں اور تحریک انصاف دھاندلی کے شواہد پیش نہ کر پائی۔

2008 کی پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات پر بحث ہوئی۔ 18 ویں ترمیم میں عبوری حکومت اور خود مختار الیکشن کمیشن کا معاملہ طے ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت لازمی قرار دی گئی۔ نامور جج جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کیا، مگر 2013 کے انتخابات کے وقت نئے قوانین کی بناء پر چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم تنہا رہ گئے۔ انھوں نے مسلم لیگ ن کو اقتدار کی منتقلی کے بعد استعفیٰ دیدیا۔

پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کو ان انتخابات پر سخت اعتراضات تھے مگر نہ تو حزب اختلاف  نے نہ ہی حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ رفخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کی وجوہات پر پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کی ضرورت محسوس کی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے 2018 کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات میں پولنگ اسٹیشن پر کیمرے نصب کرنے اور پریزائیڈنگ افسر کے فوری طور پر ریٹرننگ افسر کو نتائج منتقل کرنے کے لیے RTS کا نظام استعمال کیا تھا۔ یہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا عمدہ استعمال تھا، یہ نظام اچانک معطل ہوا۔

کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے نتائج 24 اور 48 گھنٹوں میں سامنے آئے۔ پھر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط شدہ فارم 45 کا مسئلہ بھی گنجلک ہوا۔ اخبار میں یہ خبر شایع ہوئی کہ نامعلوم شخصیت کے ٹیلی فون کی بناء پر یہ نظام بند ہو گیا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے 2018 کے انتخابات کو مسترد کیا۔ بلاول بھٹو زداری نے کہا کہ سلیکٹرز نے موجودہ وزیر اعظم کو منتخب کیا ہے مگر حزب اختلاف نے اس دفعہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدلیہ سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ نہیں کیا اور پارلیمنٹ کی کمیٹی سے تحقیقات کرانے کی حکمت عملی اختیار کی۔

یوں حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم ہوئی۔ تحریک انصاف نے 2002سے کرپشن اور شفاف انتخابات پر زیادہ زور دیا اور 2013کے انتخابات کے بعد تو سارا زور انتخابی دھاندلیوں کے تدارک پر تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کی روایت کی پیروی کی اور یہ پارلیمانی کمیٹی کوئی کام نہ کر سکی، اب حکومت نے یکطرفہ طور پر بعض اقدامات کا فیصلہ کیا ہے، مگر بحران ویسا کا ویسا ہی ہے جیسا  2013میں تھا۔

اب حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (P.D.M) میں منظم ہوئیں۔ پی ڈی ایم نے 25 نکاتی منشور پر اتفاق کیا اور یہ اعلان ہوا کہ ان نکات کو مزید مربوط کیا جائے گا۔ مسلم لیگ کے قائد نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ جھگڑا عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں سے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے فرمایا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹرز لائے ہیں، یہ حکومت اچھی طرز حکومت سے محروم ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے، یوں اس حکومت کا ہٹنا ضروری ہے۔

کراچی کے جلسہ کے بعد اچانک ان رہنماؤںکے مؤقف میں تبدیلی ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے مزار قائد پر ہونے والی صورتحال، صفدر اعوان کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے اغواء پر احتجاج کیا جس پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور رپورٹ پیش کی گئی۔ مسلم لیگ ن کے قائد نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کیا مگر پھر مریم نواز نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے موجودہ حکومت کا جانا ضروری ہے۔ بعد میں انھوں نے وضاحت کی کہ آئین کے دائرہ میں بات چیت ممکن ہے۔

پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے فرمایا کہ پی ڈی ایم کی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا فیصلہ کرے گی۔ حالات حاضرہ کے طالب علموں کو بلاول بھٹو اور مریم نواز کے تبدیل ہوتے ہوئے مؤقف پر حیرت نہیں۔ کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ گلگت کے انتخابات کی بناء پر ہو رہا ہے۔ تاریخ کا ایک باب یاد آ گیا جب جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تھی تو حزب اختلاف نے 1964 کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلہ پر فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جنھیں دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں جمہوری مجلس عمل ڈیک میں متحد ہوئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور پیپلز پارٹی قائم کی۔ اصغر خان نے تحریک استقلال کی بنیاد رکھی۔ ایوب خان کے خلاف 1968 میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔

ایوب خان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی گول میز کانفرنس بلائی۔ متحدہ حزب اختلاف نے مطالبہ کیا کہ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو رہا کیا جائے اور اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد بلایا جائے، یوں 10مارچ 1969 کو گول میز کانفرنس شروع ہوئی۔

نوابزادہ نصر اﷲ خان نے کانفرنس میں یہ مطالبات پیش کیے: وفاقی پارلیمانی نظام کی بحالی، براہِ راست اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات، صوبائی خودمختاری۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن نے ان مطالبات میں یہ اضافہ کیا کہ ون یونٹ کا خاتمہ اور مغربی پاکستان میں سب فیڈریشن کا قیام اور صوبوں کو مکمل علاقائی خودمختاری۔ انھوں نے آبادی کی بنیاد پر نمایندگی اور مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ کرنسی کا بھی مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور نیشنل عوامی پارٹی کے مولانا بھاشانی نے اس گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا، ایئر مارشل اصغر خان بھی بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہو گئے، یوں یہ کانفرنس ناکام ہو گئی اور جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کر اقتدار سنبھال لیا۔

وفاقیت کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو، مولانا بھاشانی اور اصغر خان اس کانفرنس میں شرکت کرتے اور ون یونٹ کے خاتمہ، صوبائی خود مختاری اور پارلیمانی نظام پر یکساں مؤقف اختیارکرتے اور ایوب خان کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کرتے اور اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر عبدالجبار خان کے حوالہ کر دیا جاتا تو مارشل لاء نہ لگتا اور مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 کو دنیا کے نقشہ سے غائب نہ ہوتا۔

اس بات سے یہ سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کو آئین  کی بالادستی کے اصول کے تحت وزیر اعظم عمران خان سے بات چیت کرنی چاہیے اور جامع انتخابی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پی ڈی ایم ماضی کی روایت پر عمل پیرا ہو گی تو عمران خان کی حکومت کو تو ہٹا سکتی ہے مگر نئی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کے نرغے میں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔