- پالتو کتے نے بطخ کے 15 بچوں کو گود لے لیا
- ایپل کی نئی گھڑی، پہننے والے کو بخار سے خبردار کرسکے گی
- وائرس انسانوں کو مچھروں کے لیے مزید پُرکشش بنا دیتے ہیں، تحقیق
- سندھ میں سینیٹ کی خالی نشست کے لئے ضمنی انتخاب میں پولنگ جاری
- سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرحلیم عادل شیخ کوحراست میں لے لیا گیا
- کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش
- تحریک انصاف کا صحافی عمران ریاض کی گرفتاری کیخلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان
- صحافی عمران ریاض کی گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد سے صبح 10 بجے جواب طلب
- براڈپیک کی مہم جوئی کے دوران ایک اور پاکستانی کوہ پیما لاپتہ
- صحافی عمران ریاض خان کو پولیس نے گرفتار کرلیا
- الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو کے فور منصوبے کے افتتاح سے روک دیا
- کراچی ائیرپورٹ پرہنگامی لینڈنگ کرنے والا بھارتی طیارہ 11 گھنٹے بعد روانہ
- ٹوئٹر نے مودی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا
- موسم گرما میں برطانیہ جانے کے خواہش مندوں کو فوری ویزا درخواست جمع کرانے کی ہدایت
- 35 خواتین افسران کے موبائل نمبرز فحش ویب سائٹ پر ڈالنے والے سرکاری ملازمین گرفتار
- پنجاب میں 100 یونٹ بجلی مفت کرنے پر الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ کو طلب کرلیا
- آئی ایم ایف کے پاس دیوالیہ ملک کی حیثیت سے جائیں گے، سری لنکن وزیراعظم
- بلوچستان میں بارشوں سے 15 افراد جاں بحق، کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ
- اوکاڑہ کے نوجوان کا آئندہ سال پیدل سفر حج کا اعلان
- رشوت لینے کا الزام، عثمان بزدار کے سابق پرنسپل سیکریٹری کی اینٹی کرپشن میں طلبی
فرزندان پشاور
پشاور کے لوگ بھی کمال کے لوگ ہیں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً یہ عجیب بھی ہیں اور غریب بھی ہیں بلکہ آج تک یہ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ عجیب کتنے ہیں اور غریب کتنے۔ یا یہ کہ عجیب سے زیادہ غریب ہیں یا غریب سے زیادہ عجیب ہیں۔ بلکہ یہ کہیے کہ عجیب ہیں اس لیے غریب ہیں۔
اور غریب ہیں اس لیے عجیب بھی ہیں۔ ایک طرف یہ اپنی غربت کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں تو دوسری طرف عجائب کا نقارہ بھی بجاتے ہیں۔ کھود کھود کر دنیا بھر میں پشاور کے ’’فرزند‘‘ ڈھونڈتے ہیں اور پھر ان پر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے رہتے ہیں۔
یوں تو ہر کیٹیگری میں پشاور کے فرزندوں یا فرزندان پشاور کا بول بالا ہے جہاں جہاں کوئی بڑا نام لیتا ہے اس کا تعلق پشاور ہی سے نکل آتا ہے بلکہ اگر کوشش کریں تو ٹرمپ جو بائیڈن، مودی، اردگان کا تعلق بھی پشاور سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ مہاتیر محمد کا تعلق بھی پشاور سے تھا۔ اور سوئیکارنو کا بھی ۔ آج کل ایک اکیڈمی میں ایک طالب علم، پشاور اور ’’مائیکل جیکسن‘‘ کے موضوع پر مقالہ تیار کر رہا ہے شکسپئر تو تھا ہی شیخ پیر۔ ہمیں تھوڑا تھوڑا سا یاد ہے کہ انجلینا جولی بھی جلوزئی مہاجر کیمپ میں آئی تھی۔ تو چاروں طرف دیکھ کر اس نے کہا تھا۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے میں اپنے گھر آئی ہوں
میرا تجھ سے پہلے کا ناتا کوئی
یوں ہی نہیں دل کو لبھاتا کوئی
بعض رشتے وقت کے ساتھ ساتھ مدہم پڑ جاتے ہیں مثلاً ایک مرتبہ افریقی ملک کے ایک صدر نے برطانیہ کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا انگریزوں سے خون کا رشتہ ہے۔ بعد میں کسی صحافی نے اس سے پوچھا کہ کیسا رشتہ؟ تو اس نے رازداری سے بتایا کہ بہت پہلے میرے اجداد نے ایک انگریز پادری کو کھایا تھا۔
خیر پشاور کے فرزندوں سے یوں تو دنیا بھری پڑی ہے لیکن ’’فلمی دنیا‘‘ تو خاص طور پر قابل ذکر ہے پچھلے دنوں ایک صاحب نے اخبار میں لکھا تھا کہ برصغیر کی فلم انڈسٹری میں 25 فیصد فرزندان پشاور کا حصہ ہے پھر اس نے دلیپ کمار اور شاہ رخ کا آموختہ دہراتے ہوئے بہت سارے نام لکھے جن میں راج کپور بلکہ پورے کپور خاندان یا سارے ’’کپوروں‘‘ کا ذکر تھا۔ ان سب کو سن کر ہمارے ٹیڑھے دماغ میں یہ ٹیڑھ کلبلانے لگی کہ شاید پشاور کے پانی میں کچھ ایسا ہے کہ جو یہاں رہتا ہے کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن اس عزلت آباد سے نکلتے ہی ہرا بن جاتا ہے۔
ہے وطن سے باہر اہل دل کی قدر و منزلت
عزلت آباد صدف میں قیمت گوہر نہیں
گویا عزلت آباد صدف عرف پشاور میں ہی سارا چکر ہے کہ یہاں رہتے ہوئے ’’راکھ‘‘ میں چھپا ہوتا ہے اور راکھ سے نکلتے ہی لعل ہو جاتا ہے۔ پشاور والوں کو اس معاملے میں سنجیدہ ہو کر کچھ کرنا چاہیے بلکہ ہمارا تو ان کو دوستانہ مشورہ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے پشاور چھوڑ دیں۔ ورنہ۔ تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ دلیپ کمار کو دیکھو اس غم کدے سے نکل کر کیا بنا، میوہ چلغوزے بیچنے والا شاہ رخ خان بن گیا۔ اور شہر شہر تمبو میں ڈرامے کرنے والے کپورے کیا بلکہ کیا کیا بن گئے۔ ثابت یہ ہوا کہ پشاور کی مٹی میں یا پانی میں کوئی دوش ہے یوں کوئی ’’اپ شگن‘‘ کہ ہیرے یہاں پڑے پڑے کنکر بن جاتے ہیں اور کنکر پتھر باہر نکل کر ہیرے موتی بن جاتے ہیں۔ یہ کوئی مسخرگی کی بات نہیں بلکہ نہایت ہی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ مسئلہ ہے۔
آخر یہاں رہ کر کوئی فرزند، فرزند پشاور کیوں نہیں بنتا۔ کچھ تو ایسا ضرور ہے جو پردے میں مستور ہے اور پشاور والوں کے لیے ناسور ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ہم جو اتنے بڑے محقق اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی اکیڈمیوں اور اداروں کے ڈگری یافتہ ہیں خود یہ تحقیق کیوں نہیں کرتے کہ آخر پشاور کی آب و ہوا میں ایسا کیا ہے جو فرزندان پشاور کو یہاں ’’پنپنے‘‘ نہیں دیتا یا دیتی۔ ہمارا مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم بھی پشاور میں ہیں اور جن اکیڈمیوں اور اداروں سے ہم نے ڈگریاں لی ہیں وہ بھی یہاں پشاور یعنی اس مٹی اور آب و ہوا میں ہیں۔ یعنی ’’کان نمک‘‘ میں نمک ہیں۔ یا یوں کہیے کہ عزلت آباد صدف میں ہیں تو کارنامہ کیسے دکھائیں۔ ہاں البتہ:
پھر دیکھیے اندازگل افشانی گفتار
لے جایے کوئی مجھ کو بہت دور یہاں سے
پشاور والوں کی اس حالت کو دیکھ کر ہمیں اکثر اپنے گاؤں کا غفار یاد آ جاتا ہے وہ دنیا بھر کا بھوکا ننگا اور تقریباً بھکاری تھا۔ لیکن جب بھی بات کرتا تھا اپنے نامور اجداد کی کرتا تھا یا شہر میں اپنے رشتے داروں کی۔ کوئی کہتا کہ فلاں وزیر۔ تو فوراً اس وزیر کا نک نیم لے کر۔ اچھا فلاں۔ وہ تو میرا اپنا آدمی ہے میری سگی پھوپھی کی نند کے داماد کا بہنوئی ہے۔ اچھا فلاں ڈی آئی جی۔ وہ تو میرے دادا کے بیٹے کے ماموں کا سگا نواسہ ہے اپنا آدمی ہے۔
کعبے کی ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے
فرزندان پشاور زندہ باد اور مدح سرائیاں پشاور؟
عالم ہمہ افسانہ مادارو ما ہیچ
ویسے ہمیں تو فرزندان پشاور سے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ کرینہ کپور، کرشمہ کپور، سلینا جیٹلی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔