بھارت کی امریکی عسکری خلائی سیاروں تک رسائی

سید عاصم محمود  اتوار 22 نومبر 2020
امریکا بھارت کو پاکستان پر مکمل فوجی برتری دلانے کے راستے پر چل نکلا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکا بھارت کو پاکستان پر مکمل فوجی برتری دلانے کے راستے پر چل نکلا ہے۔ فوٹو: فائل

14 نومبر کو وطن عزیز کے سول وملٹری قیادت نے تاریخی پریس کانفرنس میں اہل قوم اور دنیا والوں پر آشکارا کیا کہ بھارتی حکمران طبقہ اپنی خفیہ ایجنسی،را کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کراتاہے۔

یہ ایجنسی پاکستان دشمن تنظیموں کو بھاری رقم اور اسلحہ فراہم کرتی ہے تاکہ وہ پاکستان بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ نیز سیاسی و مذہبی شخصیات کو نشانہ بنائیں۔مقصد یہ ہے سیاسی اور فرقہ ورانہ فسادات جنم لینے سے ریاست پاکستان کمزور ہو سکے۔پاکستان کی معشیت کو نقصان پہنچانا بھی اہم ٹارگٹ ہے۔

سچ یہ ہے کہ وطن عزیز میں قتل وغارت گری کرانا بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا طریق واردات ہے۔24 اکتوبر کو بھارتی مشیر قومی سلامتی، اجیت دوول نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’یہ ضروری نہیں کہ بھارت صرف دفاع کی خاطر جنگ لڑے، اگر ضرورت ہوئی تو ہم اس ملک پر حملہ بھی کر سکتے ہیں جو ہمارے لیے خطرہ بن جائے۔‘‘ اس نئے نظریے کو اجیت دوول ’’نیو انڈیا‘‘ (New india) کا نام دیا ہے۔

پاکستان کے خلاف مودی سرکار ماہ اکتوبر سے غیرمعمولی طور پہ سرگرم ہے۔کشمیر میں بھارتی توپیں پاک فوج کے ٹھکانوں پہ آگ اگلنے لگیں۔مختلف پاکستانی علاقوں میں علمائے کرام ’’را‘‘ کے دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔اس پاک مخالف مہم کا دراصل خاص مقصد ہے،یہ کہ بھارتی عوام کی توجہ مودی حکومت کی فاش غلطیوں اور ناکامیوں سے ہٹائی جا سکے۔مودی نے بھارت کو معاشی و عسکری طور پہ علاقائی سپرپاور بنانے کا دعوی کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔مگر اس کی معاشی پالیسیاں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکیں۔

رہی سہی کسر کوویڈ 19وبا نے پوری کر دی۔آج بھارتی معشیت زوال پذیر اور شدید دبائو میں ہے۔بیروزگاری،مہنگائی اور غربت عروج پر پہنچ چکی۔ایسی معاشی گرواٹ بھارتی کی تہتر سالہ تاریخ میں کبھی نہیں آئی۔عوام کا غم وغصّہ دیکھ کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پرانا حربہ اپنایا اور پاکستان سے جنگ کا راگ الاپنے لگی۔عوام کے جذبات سے کھیل کر انھیں باور کرایا گیا کہ پاکستان اور مسلمان ہندو راشٹریہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔بھارتی حکمران طبقہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر یہی روایتی ہتھیار استعمال کرتی اور عوام کے جاہل ہونے کی وجہ سے اپنا مقصد پانے میں کامیاب رہتی ہے۔

چناں چہ سب سے پہلے 5 اکتوبر کو سربراہ بھارتی فضائیہ ، آر کے بہادریہ نے بیان دیا: ’’بھارت چین اور پاکستان کے ساتھ دو محاذوں پر جنگ کرنے کو تیار ہے۔ بھارت کی سالمیت کو ان دونوں ممالک سے خطرات لاحق ہیں۔ میں پاکستان اور چین کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ ہمیں بے خبر نہ سمجھیں۔‘‘چیف بھارتی فضائیہ نے گویا ملفوف الفاظ میں چین اور پاکستان کو دھمکی دے ڈالی کہ بھارت ان سے جنگ کے لیے تیار ہے۔ اگلے دن بھارتی وزیر دفاع، راج ناتھ سنگھ نے بیان دیا :’’چین اور پاکستان دانستہ سرحدوں پر تنازع کھڑا کر رہے ہیں۔

یہ ان دونوں ممالک کا خفیہ مشن ہے مگر بھارت خاموش نہیں رہ سکتا، ہم نے سرحدی مقامات پر بڑی تعداد میں فوج بھجوا دی ہے۔‘‘24 اکتوبر کو اجیت دوال کا بیان آیا۔25 اکتوبر کو سب سے بڑی بھارتی ریاست، اترپردیش میں حکمران جماعت بی جے پی کے صدر سوتنترہ دیو سنگھ نے ایک تقریب سے تقریر کرتے ہوئے کہا :’’رام مندر کی تعمیر اور کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کی طرح وزیراعظم مودی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کب ،کیسے اور کہاں پاکستان اور چین کے ساتھ جنگ لڑنی ہے۔‘‘ اس بیان سے عیاں ہے کہ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ خاموشی سے، چپکے چپکے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ جنگجو مودی حکومت آنے کے بعد تو ان تیاریوں کی رفتار میں کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا۔وہ کروڑوں بھوکے ننگے بھارتی عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے اربوں کھربوں روپے سے جدید اسلحہ خرید رہی ہے، صرف اس لیے کہ اپنے مفادات پورے ہو جائیں اور اپنی انا کو تسکین مل سکے۔

خطرے کی گھنٹی
26فروری 2020ء کی صبح پاکستان کے علاقے،بالا کوٹ پر حملہ کرتے بھارتی طیاروں نے اسرائیلی ساختہ سپائس (Spice) بم استعمال کیے تھے۔ یہ’’ پریسیشن گائیڈڈ بم‘‘ (precision-guided munition)ہیں یعنی ان کو ریڈار یا مصنوعی سیاروں(سیٹلائٹس) سے رہنمائی دے کر ٹارگٹ تک پہنچایا جاتاہے۔

پاک فضائیہ کے سابق فائٹر پائلٹ اور دفاعی تجزیہ کار ‘ قیصر طفیل انکشاف کرتے ہیں کہ بھارتی طیاروں نے 40کلومیٹر دور سے سپائس بم پھینکے تھے۔ ان کا ٹارگٹ بالا کوٹ میں ایک مدرسہ تھا۔ ان بموں کو فضا میں محو پرواز ایک بھارتی اواکس طیارہ گائیڈ کر رہا تھا۔ لیکن وہ بموں کو عین ٹارگٹ پر گرانے میں ناکام رہا۔ وجہ یہ کہ ریڈار عموماً اتنی زیادہ دوری پر بم یا میزائیل کو بالکل درست ٹارگٹ پر نہیں گرا پاتے۔یہی وجہ ہے، بھارتی بم درختوں پر جا گرے۔جبکہ مصنوعی سیاروں کی گائیڈنس یا رہنمائی میں گرائے جانے والے بم و میزائیل عین نشانے پر گرتے اور اسے تباہ کر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کے لیے یہ تشویشناک خبر ہے کہ بھارتی افواج کو اب امریکا کے جدید مصنوعی سیاروں کی سہولت دستیاب ہوچکی۔ گویا بھارتی حکومت اب چوبیس گھنٹے افواج پاکستان کی نقل وحرکت نوٹ کرنے اور اس کی جاسوسی کرنے پر قادر ہے۔ یہی نہیں‘ بھارتی افواج کو یہ فائدہ بھی مل گیا کہ اب وہ کئی سو کلو میٹر دور سے میزائیل یا بم سرزمین پاکستان میں واقع ٹارگٹوں تک پہنچا سکیں۔ اس سہولت نے جنوبی ایشیا میں بھارت کو پاکستان پر ایک اور عسکری فوقیت دلا دی جوپاکستانی قوم اور حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

روزِ اول سے پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والے بھارتی حکمران طبقے نے سب سے پہلے 18 مئی1974ء کو ایٹم بم کا دھماکہ کر کے عسکری سبقت پائی تھی۔ تب پاکستانی حکمران طبقے کو محسوس ہو گیا کہ بھارتی ایٹم بم نے پاکستان سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔ اسی لیے پاکستانی تن من دھن سے اپنا ایٹم بم بنانے پر جت گئے۔

1984ء کے اواخر تک پاکستانیوں نے شبانہ روز کام کرنے سے پاکستانی اٹیم بم بنا لیا۔ یوں خطے میں عسکری طاقت کاتوازن دوبارہ برابر ہو گیا۔اس دوران 1982ء سے بھارتی حکومت مختلف میزائل بنانے کے لیے ایک منصوبے’’ اینٹی گریٹیڈ گائیڈڈ میزائل پروگرام‘‘ کاآغاز کر چکی تھی۔ اس منصوبے کے ذریعے 1990ء تک زمین سے فضا میں مار کرنے والے ترشول‘ آکاش‘ پرتھوی اور اگنی میزائل بنائے گئے۔ نیز اینٹی ٹینک میزائل، ناگ وجود میں آیا۔ ان میزائیلوں کی ایجاد سے بھارت کو پاکستان پر دوبارہ عسکری سبقت حاصل ہو گئی۔

بھارت کے میزائلوں کا توڑ پانے کی خاطر 1987ء سے پاکستان نے اپنے میزائل منصوبوں پر کام شروع کیا۔ اس پروگرام میں وطن عزیز کے مختلف اسلحہ ساز اور دفاعی سامان تیار کرنے والے ادارے شریک تھے۔ ان کی مشترکہ کوششیں رنگ لائیں اور صرف دو سال کی مدت میں پاکستان نے اپنا پہلا خود ساختہ میزائل ’’حتف اول‘‘ تیار کر لیا۔ اس کامیابی سے پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئروں کا حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ پھر چین کے فنی و تکنیکی تعاون سے مزید بڑے میزائل تیار کرنے لگے۔پاکستانی میزائلوں نے شعبہ میزائل میں بھارت کی برتری ختم کر ڈالی۔

عسکری سبقت کی جدوجہد
2014ء میں قوم پرست ہندو جماعت آر ایس ایس نے بھارتی حکومت سنبھال لی۔ یہ تنظیم ماضی کے ’’اکھنڈ بھارت‘ ‘ کا قیام چاہتی ہے جس میں خصوصاً پاکستان شامل ہو گا۔ اسی لیے آر ایس ایس کا وزیراعظم‘ نریندر مودی اقتدار سنبھالتے ہی بھارتی افواج کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرنے لگا۔

مدعا یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت علاقائی سپر پاور کا درجہ پالے اور پاکستان اس کے مفادات کی تکمیل کرنے والا ماتحت ملک بن جائے۔پاکستان کو زیر کرنے کے لیے ہی بھارت نے 36رافیل ملٹی رول طیارے مہیا کرنے کا آرڈر دیا۔ فرانس میں بنا یہ جدید ترین سازو سامان سے لیس چوتھی نسل کے لڑاکا طیاروں میں مہنگا ترین طیارہ ہے۔ اس کی قیمت 249ملین ڈالر ہے۔ جبکہ ایف 16 کی قیمت 122 ملین ڈالر‘ سخوئی ایس یو 35 کی 100ملین ڈالر اور جے ایف 17 کی 32ملین ڈالر ہے۔

بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ تمام رافیل ملنے سے بھارت پاکستان پر عسکری سبقت پا لے گا۔
مودی سرکار نے روس کو اینٹی ائر کرافٹ میزائل‘ ایس 400فراہم کرنے کا آرڈر بھی دیا۔ یہ اگلے سال کے اختتام تک بھارت کو مل جا ئیں گے۔ مودی جنتا ان اینٹی ائر کرافٹ میزائلوں کو’’گیم چینجر‘‘ قرار دے چکی۔ وجہ یہ کہ یہ روسی میزائل ’’چار سو کلو میٹر‘‘ دور کسی بھی اڑتی شے مثلاً میزائل‘ ہوائی جہاز‘ بڑے بم یا ڈرون کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گویا بھارت ایس 400ملنے کے بعد اس پوزیشن میں آ جائے گا کہ اپنی حدود میں بیٹھے بیٹھے پاکستانی فضاؤں میں منڈلاتے کسی بھی میزائل ‘ ڈرون یا طیارے کو روسی میزائل مار کر تباہ کرنے کوشش کر سکے ۔ کم ازکم نظریاتی طور پر ایس400اینٹی ائر کرافٹ میزائل یقیناً بھارت کو پاکستان پر عسکری فوقیت دلا دیں گے۔

جیسا کہ بیان ہوا‘ اکتوبر 2020کے اواخر میں بھارتی افواج کو ایک اور کاری ہتھیار مل گیا جس کی بدولت وہ افواج پاکستان پر کچھ حد تک حاوی ہو سکتی ہے۔ بھارتی حکمران طبقے کا یہ نیا ہتھیار امریکی مصنوعی سیارے ہیں جو خلا سے چوبیس گھنٹے زمین پر نظر رکھتے ہیں ۔ان میں سے بیشتر عسکری(ملٹری) سیارے ہیں۔

ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی افواج کے گوناگوں کام انجام دیں۔ ان مصنوعی سیاروں کی مدد سے بھی امریکا نے دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہونے کا بھرم قائم کر رکھا ہے۔ اب ان مصنوعی سیاروں کی خدمات اور سہولیات سے بھارتی افواج بھی مستفید ہو سکیں گی۔انھیں یہ رسائی بھارت اور امریکا کے مابین حال ہی میں ہونے والے عسکری معاہدے ’’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ‘‘(basic exchange and cooperation agreement) سے ملی۔ اس معاہدے کے بعد اب بھارتی افواج زمانہ امن وجنگ میں اپنی سرگرمیاں کی خاطر امریکا کے ملٹری و سول منصوعی سیاروں سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔ اس معاہدے نے بھارتی افواج کو پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور و موثر بنا ڈالا۔

مصنوعی سیاروں کی دنیا
خلا میں تقریباً 2787 مصنوعی سیارے گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سے 1425 امریکا کے ہیں۔382 چین‘ 172 روس‘ اور 808دیگر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مصنوعی سیاروں یا سیٹلائٹس میں سے بیشتر سول اور ملٹری نوعیت کے ہیں۔ سب سے زیادہ ملٹری سیارے یعنی ’’208‘‘ امریکی ملکیت ہیں۔ مصنوعی سیارے مختلف سول کام انجام دیتے ہیں ملاً سمندری وارضی طوفانوں پر نظر رکھنا، جہاز رانی میں مدد دینا، کھیتوں کی پیمائش کرنا، کمیونیکیشن انجام دینا وغیرہ۔ ملٹری خلائی سیارے عسکری سرگرمیاں انجام دینے میں افواج کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی تین بنیادی اقسام ہیں:

٭اول وہ جو خلا سے حریفوں کی جاسوسی کرتے ہیں۔ یہ کہ وہ کون سی نئی عسکری تنصیبات بنا رہے ہیں۔ افواج کی نقل وحرکت کس مقام پر ہے۔ ٭دوم وہ ملٹری سیارے جو اپنی افواج کے میزائلوں، بموں، لڑاکا طیاروں اور ڈرونوں کو ہدف تک پہنچاتے ہیں۔ ٭سوم وہ جو دشمن کے میزائلوں، لڑاکا طیاروں اور ڈرونوں پر نظر رکھتے ہیں۔ گویا یہ دفاع مضبوط بناتے ہیں۔ تینوں اقسام کے ملٹری سیاروں میں اپنی ذمے داریاں انجام دینے کی خاطر جدید ترین اور حساس آلات نصب کیے جاتے ہیں۔

دنیا کے چار ممالک… امریکا‘ چین‘ روس اور یورپی یونین مصنوعی سیاروں کا عالمی نظام یا گلوبل نیو گیشن سیٹلائٹ سسٹم رکھتے ہیں۔اس سال کے وسط تک امریکا کا گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم سب سے زیادہ طاقتور اور موثر تھا۔ یہ عرف عام میں ’’جی پی ایس‘‘ (GPS) کہلاتا ہے۔ لیکن اب یہ اعلیٰ مقام چین کے سسٹم ’’بیڈو‘‘ (BeiDou) کو حاصل ہو چکا۔ امریکی جی پی ایس کے اس وقت 31 مصنوعی سیارے محو پرواز ہیں۔ جبکہ چینی بیڈو 35سیاروں پر مشتمل ہے۔ امریکی سسٹم کے ذریعے 30 سینٹی میٹر دور نشانے کوٹارگٹ کرنا ممکن ہے۔ جبکہ بیڈو کا ٹارگٹ صرف 10 سینٹی میٹر دوری پر ہوتا ہے۔ گویا بیڈو اپنے امریکی معاصر سے زیادہ درست نشانہ فراہم کرتا ہے۔

پاکستان کی خوش قسمتی کہ وہ چین کا قریبی معاشی و عسکری ساتھی بن چکا۔ اسی لیے چین کے علاوہ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کی افواج بیڈو کی عسکری سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ بھارت اور امریکا کی بڑھتی قربت کے باعث امریکی جی پی ایس سسٹم قابل اعتبار نہیں رہا تھا۔ مزید براں جنگ کی صورت عین ممکن ہے کہ امریکی حکومت اپنا سسٹم افواج پاکستان کو استعمال نہ کرنے دے۔ اسی لیے 2015ء سے حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ عسکری سطح پر اب بیڈو پر انحصار کیا جائے۔مغربی ماہرین عسکریات کا دعویٰ ہے کہ اب بیشتر پاکستانی میزائلوں میں بیڈو کا گائیڈنیس سسٹم نصب ہو چکا ۔ گویا اب پاکستانی میزائل ریڈار یا امریکی جی پی ایس سسٹم نہیں ’’بیڈو‘‘ کے ذریعے اپنے ٹارگٹ تک پہنچیں گے۔ چونکہ بیڈو جدید ترین نیوی گیشن سسٹم ہے لہٰذا اس کی رہنمائی پاکستانی میزائلوں کو زیادہ خطرناک بنا دے گی۔

نیا اینٹی ائرکرافٹ میزائیل درکار
مسئلہ مگر یہ ہے کہ بھارت جدیدترین طیاروں اور اینٹی ایئر کرافٹ میزائلوں کے ذریعے اپنا فضائی دفاع مضبوط سے مضبوط تر کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی سے وہ پاکستانی میزائلوں کو ناکارہ بنانے کا خواہش مند ہے ۔اصل مقصد یہ ہے کہ وہ خطے میں عسکری طاقت کا پلڑا اپنی جانب جھکا سکے۔ پاکستان ظاہر ہے‘ نت نئے میزائل بنا کر بھارتی فضائی دفاع کو کمزور تر کرنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔ اسی لیے پاکستانی سائنس داں اور انجینئر آئے دن مختلف میزائلوں کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ خوش آئندہ بات ہے۔ اس طرح بھارتی اسٹیبلشمنٹ چوکنا رہتی ہے کہ پاکستانی بے خبر نہیں، وہ اس کا فضائی دفاع کمزور کرنے کے لیے مسلسل سرگرم ہیں۔۔

بھارت کو مگر روسی ایس 400ملنے ا ور اسرائیلی اینٹی ائر کرافٹ میزائلوں مثلاً سپائڈر ،بارک اول اور ایرو کی موجودگی سے پاکستان کے فضائی دفاع میں دخول کی بہت آزادی مل جائے گی۔ گویا وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان بھی اپنا فضائی دفاع پہلے سے زیادہ مضبوط کر لے۔ پاکستان کے پاس فی الوقت مؤثر ترین اینٹی ائر کرافٹ میزائل HQ-16 ہے۔یہ چینی ساختہ میزائل ہے۔ 70 کلو میٹر دور تک اڑتے طیارے‘ میزائلوں‘ ڈرون کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آواز سے 3 گنا تیز ہے۔

پاکستانی حکومت اب چین ساختہ HQ-9 خریدنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ روس کے اینٹی ائرکرافٹ میزائل ‘ ایس 300 سے ملتا جلتا ہے۔ اس میزائل کا جدید ترین ورژن یا نمونہ 300 کلو میٹر سے زیادہ دور اڑتے طیارے یا میزائل کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی رفتار ماخ 4.2 یعنی آواز سے 4 گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان جے ایف 17 کے نئے ورژن بھی تیار کر رہا ہے۔ شنید ہے کہ ان میں چین کا ساختہ PL-15 میزائل نصب ہو گا۔ یہ فضا سے فضا میں مار کرنے والا بیونڈویژول رینج میزائل ہے۔ ریڈار اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ یہ دو سو پچاس کلو میٹر دور تک اڑتے طیارے ‘ میزائل یا ڈرون کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رفتار ماخ4 ہے۔ یہ ملنے سے پاکستان کا دفاع مستحکم تر ہو گا۔

بھارتی امریکی بڑھتی قربت
پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بتدریج بھارت کو جدید ترین عسکری ٹکنالوجی اور ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔پچھلے بیس برس میں روس کے بعد امریکا ہی بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا۔ان کی باہمی تجارت بھی ایک سو ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کر چکی۔

جلد چین نہیں امریکا بھارت کا سب سے اہم تجارتی ساتھی بن جائے گا۔عسکری سائنس وٹکنالوجی میں امریکا سپر پاور ہے اور اس سے بڑھتی قربت بھارت کو بھی نمایاں عسکری طاقت بنا سکتی ہے۔گو وزیراعظم عمران خان نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو خبردار کیا ہے کہ مودی سرکار انتہا پسند،فاشسٹ اور ناقابل اعتبار ہے۔وہ اس پہ بھروسا کر کے غلطی کر رہی ہے۔امریکا مگر ایک طرف ایران،پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کو جدید اسلحہ سپلائی کرنے سے گریزاں ہے،دوسری سمت اس نے بھارت کو دنیا بھر سے ہتھیار خریدنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔یہ امریکی حکمران طبقے کا نمایاں دوغلاپن ہے۔

ماضی میں بھارت سوویت یونین کا ساتھی تھا۔سوویت قوت زوال پذیر ہوئی تو بھارت نے بھی سرمایہ دارانہ پالیسیاں اپنا لیں اور امریکا و یورپی ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھانے لگا۔بھارت ایک ارب پینتیس کروڑ انسانوں پر مشتمل دنیا کی دوسری بڑی منڈی ہے۔اسی لیے امریکیوں کی نگاہ میں بھارت کی معاشی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔

آج دونوں کی باہمی تجارت اربوں ڈالر پہ پھیل چکی اور وہ اہم تجارتی ساتھی بن چکے۔2010ء کے بعد امریکا اور چین کے مابین تصادم شروع ہوا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ بھارت کو عسکری دوست کے طور پر بھی دیکھنے لگی۔اس نے پھر بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات قائم کر لیے۔اس تبدیلی کی بنیادی وجہ بحرہند کے علاقے میں بھارت کو علاقائی سپر پاور بنانا ہے۔دراصل چین کی ’’70 فیصد‘‘عالمی تجارت بحرہند کے راستے ہوتی ہے۔اگر بھارت کی بحری وفضائی افواج طاقتور ہو جائیں تو وہ بحرہند کو کنٹرول کر سکے گا۔یہی خطرہ بھانپ کر چین نے پاکستان اور وسطی ایشیا میں ارضی راستے تعمیر کرنے شروع کیے تاکہ اسے متبادل تجارتی راہداریاں دستیاب ہو سکیں۔

صدر ٹرمپ کے دور میں امریکا اور چین کا ٹکرائو عروج پہ رہا۔ٹرمپ چین سے تجارت کم سے کم کر کے امریکی کمپنیوں کی ترقی چاہتے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے صدر،جو بائیڈن چین کے معاملے میں کس قسم کی تھارتی و عسکری پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ بسلسلہ چین امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔

اسی لیے امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری تعلقات میں اضافے کا رجحان جاری رہے گا۔اگرچہ بائیڈن حکومت آنے کے بعد مودی حکومت شاید کھل کر مسلمانان مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں پر ظلم وستم نہ ڈھا سکے۔جو بایڈن اور ان کی نائب صدر،دونوں انتخابی مہم میں مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے پر مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنا چکے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے سیاسی رہنمائوں کے نظریے اور پالیسیاں بدل جاتی ہیں۔لہذا بعید نہیں کہ بائیڈن حکومت ٹرمپ سے بھی زیادہ بھارت کی حمایتی بن جائے۔

یہ بہرحال حقیقت ہے کہ امریکی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں اتفاق ہو چکا ، چین کی ترقی وبڑھوتری روکنے کے لیے انھیں مل جل کر کام کرنا ہے۔عین ممکن ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ جلد بھارت کو ’’پنج چشمی(Five Eyes)گروپ میں شامل کر لے۔نہایت خفیہ طریقے سے کام کرنے والے اس گروہ میں پانچ ممالک…امریکا،برطانیہ،کینیڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔یہ سبھی عسکری اور جاسوسی کے معاملات میں ایک دوسرے سے بہت قریبی اور خفیہ تعاون کرتے ہیں۔اگر اس گروپ میں بھارت شامل ہوا تو وہ ’’شش چشمی ‘‘کہلانے لگے گا۔روس اب بھی بھارت کو اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی اور گہرائی نہیں رہی۔ایک وجہ تو بھارت اور امریکا کے مابین بڑھتی دوستی ہے۔

دوسرے روس اور چین میں قربت بڑھ رہی ہے۔یہ دونوں بڑے ملک دنیا سے امریکا کی یک رخی حاکمیت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔بھارت سے دوریاں جنم لینے سے ہی روس اب پاکستان پر مہربان ہو چکا۔حال ہی میں روسی فوجیوں نے پاکستان پہنچ کر پاکستانی سپاہ کے ساتھ فوجی مشقیں کیں۔نیز صدر پیوٹن کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی حالیہ کانفرنس سے خطاب کیا۔جیسے بھارت اور امریکا نمایاں تجارتی ساتھی بن چکے،اسی طرح چین اور روس کے درمیان تجارت مسلسل بڑھ رہی ہے۔یہ تبدیلی روس کو بھارت سے مزید دور کر سکتی ہے۔مزید براں بھارت اور چین کی بڑھتی کشیدگی میں روس لامحالہ چینی حکومت کا ساتھ د ے گا۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں خطّے میں دو بڑے عسکری اتحاد بن سکتے ہیں۔ایک اتحاد میں امریکا، جاپان، بھارت، تائیوان، آسٹریلیا اور ویت نام شامل ہوں گے۔ جبکہ دوسرا چین، روس، ترکی، پاکستان، ایران ،افغانستان اور نیپال پہ مشتمل ہو سکتا ہے۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی کا راز
بھارت کو یہ بہت بڑا فائدہ حاصل ہے کہ وہاں ریاست کے پانچوں ستونوں … سیاسی راہنماؤں‘ افواج‘ بیوروکرسی‘ عدلیہ اور میڈیا میں ہم آہنگی جنم لے چکی۔ پچھلے ستر برس میں یہ پانچوں ستون ایسا طریق کار وجود میں لا چکے جس کے ذریعے وہ باہمی مشاورت سے قومی پالیسیاں بناتے ہیں۔ اگر سیاست دانوں اور جرنیلوں کے مابین اختلافات ہوں بھی تو وہ منظر عام پر نہیں آپاتے ۔بھارتی سیاست دان بھی آپس میں لڑتے بھڑتے ہیں مگر وہ کبھی قومی سلامتی اور ریاست کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے والے غیر ذمے دارانہ عمل انجام نہیں دیتے۔جبکہ پاکستان میں اب تک پانچوں ستونوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی بلکہ وہ باہم برسرپیکار رہتے ہیں۔

ان ایلیٹ طبقوں یا اشرافیہ کی باہمی لڑائی سے عوام کو بھی نقصان پہنچتا ہے کہ تصادم کے باعث ملک ترقی نہیں کر پاتا اور نہ ہی خوشحال ہوتا ہے۔معاشرے میں ایلیٹ طبقات کے مابین مفاہمت پر مبنی نظام حکومت نے دنیائے مغرب میں جنم لیا۔اس نئے حکومتی نظام کی اہم خاصیت یہی ہے کہ ریاست کے سبھی ستون باہمی مشاورت سے ملکی نظم و نسق چلانے لگے۔ گویا انہوںنے محاذ آرائی ترک کر کے حکومتی اختیارات کی تقسیم کا سمجھوتا کر لیا۔ اختیارات کی جنگ کے خاتمے اور مشاورتی عمل شروع ہونے سے مغربی ممالک کو بے پناہ فوائد ملے اور دنیائے مغرب میں ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہو گیا۔گویا مشاورت کا عمل اس نظام کی بنیاد ہے۔

ممکن ہے کہ اس نظام حکومت کے بانی اسلامی جمہوری نظام سے واقف ہوں اور انہوںنے شوری کا عمل اسی سے لیا۔ قرآن پاک واحد الہامی کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جامع جمہوری حکومتی نظام پیش فرمایا۔ اس جمہوری نظام میں’’شوری‘‘ یا ’’مشاورت‘‘ کا عمل بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ رب کائنات نے اس عمل کی اہمیت نمایاں کرنے کے لیے شوری کے نام سے ایک سورۃ بھی نازل فرمائی۔ اس سورہ کی آیت 38میںاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مسلمان صاحب ایمان اور قابل بھروسہ ہیں جو اپنے کام صلاح مشورے سے انجام دیں۔

اسی طرح سورہ آل عمران آیت 159میں نبی کریم ﷺکو ہدایت دی گئی کہ آپؐ معاملات میں مسلمانوں سے مشورہ کر لیا کریں۔رسول اکرم ؐ بادشاہ حکمران نہیں اسلامی لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے جرنیل بھی تھے۔ آپ ؐ کی جنگی مہارت کے باعث مسلمانوں نے کئی معرکوں میں فتح پائی ۔اس کے باوجود رسول اکرم ؐ ہر اہم معاملے میں صحابہ کرامؓ سے مشاورت فرماتے۔ چناںچہ حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر جنگ احزاب کے موقع پر خندق کھودی گئی۔

خلفائے راشدین نے بھی سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے مشاورت کا عمل اپنائے رکھا۔ لیکن آنے والے مسلم حکمرانوں نے بادشاہی طور طریق بھی اپنا لیے اور اسلامی جمہوریت پہلے کی طرح خالص نہ رہی۔ اس نئے نظام میں اگر کوئی مسلم حکمران نیک‘ خوف خدا رکھنے والا اور انسان دوست ہوتا‘ تو وہ اپنی رعایا کی بھلائی کے کام کرتا۔ اس کے دور حکمرانی میں عوام سکھ چین کی نیند لیتے لیکن کوئی مغرور اور ظالم حکمران آتا تو وہ رعایا کا جینا حرام کر دیتا۔ معمولی باتوں پر لوگوں کا سرقلم کر دینا بادشاہ وقت کے لیے عام بات ہوتی۔

پاکستان میں بھی مقتدر طبقوں کو ایسا حکومتی نظام تخلیق کرنا چاہیے جس میں ہر ایک کے اختیارات متعین ہوں ۔ سب سے بڑھ کر تمام قومی پالیسیاں باہمی مشاورت سے بنائی جائیں۔ اگر ملٹری قیادت معاشی مسائل سے نمٹنے میںسول حکومت کی مدد کرے تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟ نیت اور مقصد تو یہی ہے کہ ملک مشکلات سے نکل آئے اور عوام مسائل سے نجات پائیں ۔ بحرانی کیفیت اور گھمبیر حالات میںکوئی فریق اپنے کردار تک محدود نہیں رہتا بلکہ سب کو مل جل کر ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کو بھی اس وقت اندرونی و بیرونی طور پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔بھارت نے ہمارے خلاف کئی محاذوں والی ’’ففتھ جنریشن ہائی برڈ جنگ‘‘ چھیڑ رکھی ہے۔ یہ آپس میں دست و گریبان ہونے نہیں بلکہ باہمی مشاورت سے قومی پالیسیاںتشکیل دینے کا وقت ہے تاکہ دشمن کے عزائم خاک میں مل سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔