دعویٰ

ایم جے گوہر  اتوار 22 نومبر 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں شکست اور جوبائیڈن کی کامیابی پر دنیا بھر کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ عالمی طاقت امریکا کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے جوبائیڈن 20 جنوری 2021 کو 46 ویں امریکی صدر کا حلف اٹھائیں گے۔

گزشتہ صدی میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جو دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے سے محروم رہے۔ امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں صدارتی انتخابات ہمیشہ مقررہ وقت پر یعنی ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوتے ہیں۔ اگرچہ عالمی وبا کی صورت اختیار کرنے والے خوف ناک وائرس کورونا کے باعث پوری دنیا کی طرح امریکا میں بھی صورتحال غیر تسلی بخش ہے۔

تقریباً 2 لاکھ سے زائد امریکی کورونا وائرس میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں جب کہ کورونا متاثرین کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کرچکی جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نازک اور مخدوش صورتحال کے باوجود امریکا میں وقت مقررہ پر انتخابات کا ہونا نظام کے تسلسل اور پختگی کا مظہر ہے۔ ٹرمپ کی شکست اور جو بائیڈن کی فتح عالمی سیاست میں کیا تبدیلیاں لائے گی اس حوالے سے مبصرین و تجزیہ نگار اپنی اپنی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ جوبائیڈن کی فتح میں ان کا اپنا کردار اتنا موثر نہیں جتنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ناقص پالیسیاں اور ان کا مزاج وغیر مہذب و غیر شائستہ لب و لہجہ تھا جس نے بالواسطہ طور پر عوامی رجحانات کو جوبائیڈن کے حق میں فیصلہ کن عامل بنا دیا۔ امریکیوں کے ڈونلڈ مخالف رویوں اور غم و غصے نے جوبائیڈن کے ووٹ بینک میں حیران کن اضافہ کردیا اور وہ توقع سے زائد الیکٹرول ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگئے۔

ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار میں امریکی معاشرہ گورے اور کالے کی تقسیم کا شکار ہوا۔ ٹرمپ کے نسل پرستانہ رویے نے سماجی فاصلوں میں اضافہ کیا۔ میڈیا سے لڑائی ٹرمپ کو مہنگی پڑی۔ عالمی سطح پر ٹرمپ کی پالیسیوں سے کشمیر، فلسطین، ایران، افغانستان، پاکستان اور چین کے ساتھ ان کے معاندانہ رویوں کے باعث یہاں کے عوام کی امریکا سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔

ٹرمپ کے بارے میں ایک حلقے کی رائے ہے کہ وہ قوم پرست ہیں اور امریکا کو معاشی طور پر مضبوط بنانا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے روایت سے ہٹ کر پالیسیاں اپنائیں ،اور چین میں کاروبار کرنے والے صنعت کار امریکیوں سے کہا کہ وہ چین کے بجائے امریکا میں آ کر صعنتیں لگائیں تاکہ امریکا میں خوشحالی آئے اور بے روزگاری پر قابو پانے میں مدد ملے،انھوں نے میکسیکو سے غیر قانونی آمد و رفت بھی روکنے کے لیے وہاں دیوار بنانے کی بات کی۔

انھوں نے غیر قانونی طور پر امریکا آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اپنائی اور اس کے علاوہ جنگوں سے گریز کیا کیونکہ ان جنگوں نے امریکی معیشت پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا تھا۔انھوں نے افغانستان سے بھی امریکی فوجوں کو نکالنے کی پالیسی اپنائی۔اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے پورے کرنے کی کوشش کی تاکہ انھیں یہودیوں کی حمایت مل سکے اور انھیں الیکشن جیتنے میں آسانی ہو۔

سابق صدور کے برعکس انھوں نے مسلم ممالک کے خلاف لشکرکشی سے گریز کیا۔ ٹرمپ نے کشمیر پر مودی کے 15 اگست کے غاصبانہ اقدام کی مذمت نہیں کی جس سے مودی حکومت کے حوصلے بلند ہوئے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے میں ٹرمپ کا کردار نمایاں رہا۔ اوباما دور میں ایران کے ساتھ ہونے والے نیوکلیئر معاہدے کو ختم کردیا گیا، افغانستان سے کلی طور پر امریکی افواج کے انخلا میں ٹرمپ ناکام رہے۔

جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ یعنی مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں کوئی پیش رفت ٹرمپ کے نام سے منسوب نہیں۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اندرون اور بیرون وطن ہر دو جگہ ایک باوقار عالمی طاقت کے صدر کا سنجیدہ چہرہ پیش کرنے میں ناکام رہے جس کا خمیازہ انھیں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

جہاں تک جوبائیڈن کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ امریکا میں صدر کی تبدیلی سے علاقائی و عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں میں کوئی نمایاں جوہری تبدیلی نہیں ہوتی۔ امریکا کے پالیسی ساز ادارے ہر صورت امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والی پالیسیاں ہی مرتب کرتے ہیں۔ تاہم عالمی قوت کا صدر ہونے کے ناتے امریکی صدور ایک خاص حد تک اپنے اختیارات و پالیسیوں کے ذریعے عالمی سیاست پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔

اسی پس منظر میں بعض مبصرین کی آرا کے مطابق پاکستان کے حوالے سے جوبائیڈن کا رویہ مثبت ہوگا۔ اپنی نائب صدارت کے دور میں وہ ایک سے زائد مرتبہ پاکستان آچکے ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین آصف زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے اچھے مراسم ہیں۔ ملک کی عسکری قیادت کے ساتھ بھی جوبائیڈن کو صدر منتخب ہونے پر اپنے تہنیتی پیغامات میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ ان کے دور میں پاک امریکا تعلقات میں مزید استحکام و اعتماد پیدا ہوگا اور عالمی امن کے لیے بائیڈن اپنا تعمیری کردار ادا کریں گے۔ بالخصوص افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں جوبائیڈن کا اقدام اہم ہوگا۔

پاکستان نے اس ضمن میں اپنی سہولت کاری کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ادھر ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انتخابات میں ’’پاکستانی اسٹائل‘‘ میں دھاندلی کا الزام لگایا اور سپریم کورٹ جانے کی دھمکی بھی دی ۔ پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں ٹرمپ کی شکست پر شاداں ہیں۔

پی ڈی ایم کے رہنما گلگت بلتستان کے انتخابی معرکے میں بلند آہنگ دعوے کرتے رہے کہ امریکی عوام کی طرح یہاں کے لوگ بھی ٹرمپ کی طرح عمران خان کو شکست سے دوچار کریں گے۔ جب کہ عمران حکومت کا دعویٰ تھا کہ سروے کے مطابق وہ گلگت کا معرکہ جیت لیں گے۔ اور اب انھوں نے وہ معرکہ جیت لیا ہے۔اور اب موجودہ صورتحال کے مطابق تحریک انصاف جیتنے والے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔