انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کی سیاست

سلمان عابد  اتوار 22 نومبر 2020
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں انتخابات سے جڑی سیاست کا ایک بڑا المیہ ہمیں انتخابی دھاندلی اور نتائج کو قبول نہ کرنے کی صورت میں قومی سیاست کی سطح پر بالادست نظر آتا ہے۔

جو بھی جماعت انتخابات جیتی ہے اس کے بقول یہ انتخابات بہت ہی آزادانہ اور شفافیت پر مبنی تھے۔ جب کہ ہارنے والی جماعت کے بقول انتخابات دھاندلی پر مبنی تھے اور ہم نتائج کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے ۔1970 سے 2018 تک ہونے والی انتخابات کی سیاسی تاریخ محاذ آرائی ، سیاسی تلخیوں ، اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلتوں ، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو قبول نہ کرنا جیسے امور سے جڑی نظر آتی ہے۔

لیکن 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو حزب اختلاف نے دھاندلی زدہ انتخابات قرار دے کر عمران خان کی حکومت کو ’’ سیلیکٹڈ حکومت ‘‘ قرار دیا ۔ اس وقت بھی حزب اختلاف کسی بھی صورت میں عمران خان حکومت کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے سے انکاری ہے ۔ حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو اور ملک میں نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں۔ حالیہ گلگت بلتستان کے انتخابات کو بھی حزب اختلاف جعلی انتخابات کا درجہ دے چکی ہے اور وہاں بھی تحریک انصاف کی حکومت کو قبول نہیں کیا جا رہا ۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارا مسئلہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں یا بس ہماری جیت ہی عملا شفاف انتخابات کی ضمانت ہوگی ۔

2018کے انتخابات میں حزب اختلاف کے بقول گٹھ جوڑ کی وجہ سے رزلٹ ٹرانسمیشن مینجمنٹ سسٹم یعنی آر ٹی ایس کو خراب کرکے مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے ۔ اس سے قبل عمران خان کے بقول 2013میں ان کے سیاسی مینڈیٹ کو چرایا گیا تھا اور ان ہی انتخابات کو آصف علی زرداری نے آر اوزکا انتخابات قرار دیا تھا۔ایک بنیاد یہ بنائی جاتی ہے کہ کیونکہ ہمارے سیاسی و انتخابی نظام میں مداخلت رہتی ہے تو شفاف انتخابات کا عمل ممکن نظر نہیں آتا ۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر انتخابی اصلاحات کے تناظر میں ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اور بائیو میٹرک کی تصدیق کے بعد ووٹ کو ڈالنے کا حق اور سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ کار اختیار کرنے کی بات کی ہے ۔اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کے لیے ای ووٹنگ سسٹم کی سہولت فراہم کرنے کی بات بھی کی ہے ۔ حکومت کے بقول حزب اختلاف ا ن معاملات پر ہم سے تعاون کرے تاکہ شفاف انتخابات کی طرف پیش رفت کی جاسکے ۔وزیر اعظم عمران خان بار بار سینیٹ کے موجودہ طریقہ انتخابات پر شدید تنقید کرتے رہے ہیںاور ان کے بقول خفیہ رائے شماری کرپشن کی سیاست کو پیدا کرتا ہے ۔ تحریک انصاف نے ماضی میں اپنے بیس ارکان کو بھی پارٹی سے نکال دیا تھا جو پارٹی سے غداری کے مرتکب ہوئے تھے ۔

وزیر اعظم کی انتخابی اصلاحات کی یہ تجویز ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حزب اختلاف نے حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے حکومت گراؤ مہم شروع کی ہوئی ہے ۔ حزب اختلاف کے بقول دسمبر اور جنوری تک حکومت کو ہر صورت میں گھر بھیج دیا جائے گا ۔ اس وقت حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی تلخی اور بداعتماد ی یا سیاسی تقسیم بھی عروج پر ہے ۔ کوئی بھی فریق ایک دوسرے کے سیاسی وجود یا مینڈیٹ کو ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ایسے میں انتخابی اصلاحات پر کیسے بات ہوگی اور کیوں حزب اختلاف حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھائے گی ، ممکن نظر نہیں آتا ۔حزب اختلاف کا خیال ہے کہ حکومت ہمیں مذاکرات یا اصلاحات کے نام پر سیاسی گھیرے میں لاکر ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اپنی حکومت کو بچایا جاسکے ۔اس لیے حزب اختلاف اسے ایک سیاسی چال ہی سمجھتی ہے ۔

ایک مسئلہ جہاں انتخابی اصلاحات کا ہے وہیں عمومی طور پر ہمارے سیاسی کلچر، سیاسی جماعتوں کے کمزور داخلی نظام اور عدم شفافیت پر مبنی اہم مسائل ہیں۔کیونکہ انتخابی دھاندلی صرف وہ نہیں ہوتی جو انتخابات کے دن ہوتی ہے یا یہ کام صرف سرکاری مشینری ہی کرتی ہے ۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں مقامی سطح پر نہ صرف خود دھاندلی کرتی ہیں بلکہ دھونس، دھاندلی ، بدمعاشی ، خوف ، جبر اور تشدد کی بنیاد سمیت ووٹ کی خرید و فروخت جیسے معاملات میں بھی ملوث ہوتی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں نے اس کام کے لیے باقاعدہ مافیاز پالے ہوتے ہیں جو سیاسی قیادت کی مدد کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے ہیں ۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے یا جو انتخابات لڑرہے ہوتے ہیں وہ پیسوں کی بنیاد پر سرکاری مشینری کو اپنے حق میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔سیاسی جماعتیں جب خود اپنی اصلاح نہیں کریں گی تو کیسے شفاف انتخابات کا کلچر نمایاں ہوگا۔

مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے بھی سیاسی جماعتوں کو خود بھی منظم ہونا ہوگا ا ور ہر وہ برا عمل جو وہ کرتے ہیں اس سے کنارہ کشی اختیارکرنا ہوگی ۔ سیاسی جماعتیں خود غیر جمہوری اداروں کی حمایت کے لیے اپنے ہی سیاسی اور جمہوری نظام کی مخالف بن جاتی ہیں ۔ اسی طرح اپنی شکست کو قبول کرنے کا کلچر بھی عام کرنا ہوگا ۔ محض انتخابی دھاندلی کا نعرہ بلند کرکے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا بھی کوئی بہتر طور طریقہ نہیں ۔ یہ ہی سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو پوری سرکاری مشینری کا ضمنی یا دیگر انتخابات میں بے دریغ استعمال کرتی ہیں جن میں ضمنی انتخابات سمیت مقامی حکومتوں کے انتخابات اور آزاد کشمیر یا گلگت انتخابات ہوتے ہیں ۔

اس لیے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ضرور مزاحمت ہونی چاہیے کہ وہ بھی انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہوں اور نہ اپنی مرضی کے فیصلے کرکے جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ بنیں ۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب خود سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں اپنا بھی احتساب کریں کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں ان کا اپنا سیاسی اور جمہوری مقدمہ کیا ہے اور وہ خود کس حد تک شفافیت پر مبنی نظام پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ دوہرے معیارات اور تضادات پر مبنی سیاست کے ساتھ شفاف انتخابات کی منزل بہت دور ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔