سرکلر ریلوے ا ور بد نصیب کراچی

جاوید قاضی  اتوار 22 نومبر 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میرے کانوں میں اب بھی اس ریل کی سیٹی کی آواز گونجتی ہے جو بچپن میں مجھے نیند سے اٹھا دیتی تھی۔ آج جب کراچی میں سرکلر ریلوے کا آغاز پھر سے ہونے جا رہا ہے تو یہ ریل کی سیٹی پھر سے کانوں میں گونجنے لگی ہے۔ گو سرکلر ریلوے کی وہ افادیت تو نہیں رہی مگر جو ریل کی پٹری پر قبضہ ہوا تھا اور پاکستان ریلوے کا محکمہ خواب غفلت میں سو چکا تھا، اب کم از کم بیداری تو ہوئی۔

کراچی کا شمار دنیا کے بڑے آبادی والے شہروں میں ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریکارڈ ہے کہ ان سب شہروں میں جو جدید ٹرانزٹ سسٹم ہے وہ کراچی کا ہے۔ یہ شہر اتنا بڑا ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں رکھتا جو پاکستان کے دوسرے شہر یعنی لاہور، اسلام آباد، ملتان یا پشاور وغیرہ رکھتے ہیں جب کہ آبادی کے لحاظ سے یہ شہر کراچی سے آدھی آبادی کا حجم رکھتے ہیں۔

پاکستان کے ان شہروں کے میگا ٹرانسپورٹ سسٹمز میں سب سے بڑا منصوبہ گرین لائز بسز، میٹرو ٹرین وغیرہ ہیں جو پاکستان میں سی پیک کے ذریعے لائے گئے مگر کراچی کے لیے اب تک کوئی جامع منصوبہ ترتیب نہیں دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے تیرہ سالہ دورِ اقتدار میں جو چند اکا دکا بسوں کا منصوبہ تھا، یہ شہر اس سے بھی بے نور ہوا۔

میں جب شیر باز مزاری کی سوانح حیات پڑھتا ہوں یا پھر شیخ مجیب کی سوا نح حیات تو اس دور میں جو  پچاس کی دہائی سے لے کر ستر کی دہائی تک کا تھا، وہ ایک حسین باب ہے، اس شہر کی تاریخ کا۔ میرے سامنے سیکڑوں بلیک اینڈ وائیٹ تصویریں ہیں، ان یادوں کی ۔ سینما گھر جو اب تک ممبئی کی رونق ہیں، مگر یہاں اب صرف ان کی یادیں اور باقیات ہیں۔ کتنی بسیں ہوا کرتی تھیں۔ میں بچپن میں اپنی امی کے ساتھ ٹرام میں چڑھا کرتا تھا۔

غرض کہ پورا پاکستان کراچی کے سامنے کچھ بھی نہ تھا، روشنیاں ہی روشنیاں تھیں اس شہر میں۔ اور اب ؟یہ شہر صرف امیروں کے لیے بہتر ہوا ہے۔ متوسط طبقے اور غریبوں کے لیے صرف بدتر۔ دو مرتبہ اس شہر کی ڈیموگرافی بھی تبدیل ہوئی ہے۔ پہلے سندھی ہندو یہاں سے ہجرت کر گئے یا پھر ہجرت کرائی گئی۔ پھر ہجرت کر کے آنے والوں کی بڑی اکثریت اس شہر میں آباد ہوئی۔ اور پھر اس شہر میں خیبر پختونخوا کے لوگ بھی آباد ہوئے۔ جو لوگ ہندوستان سے آئے، ان میں پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت یورپ اور امریکا جا بسی۔ غرض یہ کہ یہ شہر بہت سی زبانیں بولنے والے، بہت سے مذہبی فرقوں  و اقلیتوں، بنگا لی اور برمیوں کا بھی شہر ہے۔

پاکستان کی سیاست میں دوسرے صوبوں اور ان میں رہنے والوں کا شاید اتنا اثر نہیں جتنا، ان شہروں میں رہنے والوں کا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے لاہور کی جڑیں دیہی پنجاب میں ہیں، پشاور پنڈی کی جڑیں بھی، مگر کراچی باقی سندھ سے مختلف سیاسی سوچ رکھنے والا شہر ہے۔ کل تک حیدرآباد ، اس شہر کی سوچ کے ساتھ تھا مگر آج وہ شہر بھی اکثریتی اعتبار سے کراچی کی مجموعی سوچ سے الگ تھلگ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔

کراچی شہر کو حقیقتاً الگ تھلگ رکھا بھی گیا، باقی سندھ اور اس کے مجموعی بیانیہ سے۔ جو سندھ کے دیہی ووٹ سے جیت کر آئے ہیں وہ باقی سندھ کے بیانیہ سے ٹکرائو میں ہیں۔ اس ٹکرائو کا ایک پلڑا جمہوریت کی طرف جاتا ہے اور دوسرا غیر جمہوری قوتوں کی طرف ۔ اسی طرح مجموعی طور پر سندھ کی توانائیاں باہمی تضادات میں ضایع ہو رہی ہیں۔ یہ شہر اس پورے پس منظر میں ایک یتیم شہر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

اس شہر کا اصل المیہ یہ ہے کہ نہ سندھ حکومت میں اس کا اثر ہے نہ وفاق میں۔ اس کا حل یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کراچی کو ایک ا لگ صوبہ بنایا جائے جو سیاسی معنوں میں ایک لالی پاپ کی حقیقت رکھتا ہے۔ کراچی شہر کے لیے ایک الگ صوبہ بننا خود کراچی کے لیے تباہی کا باعث ہو گا۔ ایسی تباہی جس کا کوئی ازالہ نہیں۔ یہ وہ تباہی ہو گی جس کے سامنے اگر تصور کیا جائے تو متحدہ کے دور میں دہشتگردی کا عروج بھی شاید کچھ نہیں!

اور اب یہ بدنصیب کراچی آپ کے سامنے ہے۔ مون سون بارشیں جو آئیں اس سال تو نالے ابل پڑے، گندگی کے ڈھیر لگ گئے، لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے۔ کچی آبادیوں کا اتنا بڑا حجم پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس شہر کا کوئی ماس ٹرانزٹ سسٹم نہیں۔ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ کراچی شہر کا  کوئی موازنہ نہیں اس ملک کے کسی شہر سے۔ ہاں البتہ ساؤتھ ایشیا کے کچھ ایسے شہر ہوںگے جو کراچی کے مدِمقابل ہوں گے۔

ممبئی ، ہندوستان کا وہ شہر ہے جو کراچی سے مماثلت رکھتا ہے۔ وہی آب و ہوا، وہ ہی سمندری کنارہ مگر ماس ٹرانزٹ سسٹم کراچی سے سو گنا بہتر۔ ممبئی میں دس لاکھ لوگ روزانہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹرین کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ چھ سو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی یہ ریل کی پٹری ڈیڑھ سو کلو میٹر زیرِ زمیں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ان کا یہ ریلوے سسٹم بہت سے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔

ممبئی شہر  میں  بہت سے اضلاع اور میونسپلٹیز ہیں لیکن ان میونسپلٹیز کے انتظام کے تابع ان کا ریلوے سسٹم نہیں۔ بسوں کا الگ ایک منظم سسٹم ہے جس کے ذریعے روزانہ لاکھوں شہری سفر کرتے ہیں۔ ایک عام اور سستے کرائے کی بس سے لے کر ایئر کنڈیشنڈ بسوں تک کا ایک جال ہے اس شہر میں۔ آج سے پندرہ سال پہلے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا سسٹم قدرے بہتر تھا مگر اب کوئی ٹرانز سسٹم نہیں، جو بسیں اور ویگنیں آج سے پندرہ سال پہلے کراچی کی سڑکوں پر چلتی تھیں آج وہ نظر نہیں آتیں۔ اب موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہے۔

غریب بندے نے موٹر سائیکل کی صورت میں اپنی سواری ڈھونڈ لی ہے اور امیروں نے بڑی بڑی گاڑیاں اور باقی جو بسیں کراچی کی شاہراؤں پر نظر آتی ہیں ان کی حالت بد سے بدتر ہے ۔ ان میں وہ ہی لوگ سفر کرتے ہیں جن کے پاس نہ موٹر سائیکل ہے نہ کوئی گاڑی۔ ان موٹر سائیکلوں کی وجہ سے نہ صرف کراچی کے ٹریفک کا نظام متاثر ہوا ہے بلکہ ان کے دھوئیں کی وجہ سے آلودگی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ حادثات کی بھرمار ہے۔

یہ سرکلر ریلوے مشکل سے چند کلو میٹرز  ہے۔ جب ریل ایک دفعہ چلے گی اور پھر گھنٹوں کے طویل وقفے کے بعد دوبارہ وہاں سے گزرے گی، یہ بھی اور کچھ نہیں عوام کے لیے بس ایک لالی پاپ ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ ایک عہد کے ساتھ اس شہر کے لیے ماس ٹرانزٹ سسٹم کو زبردستی چھین لیا جائے۔ یہ شہریوں کا جمہوری حق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔