اُردو سے شرمانا کیا؟

سہیل احمد صدیقی  اتوار 22 نومبر 2020
تبدیلی سرکار نے کوئی اور اچھا کام کیا ہو نہ کیا ہو، عوامی اجتماعات سے اردو میں خطاب کا وہ طرز اپنانے کی سعی ضرور کی ہے
۔ فوٹو : فائل

تبدیلی سرکار نے کوئی اور اچھا کام کیا ہو نہ کیا ہو، عوامی اجتماعات سے اردو میں خطاب کا وہ طرز اپنانے کی سعی ضرور کی ہے ۔ فوٹو : فائل

کالم نمبر 73

اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ آیا آپ اپنی ماں سے پیار کرتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کا جواب برجستہ یہ ہوکہ یہ بھی کوئی سوال ہوا۔ اسی پر بس نہیں، اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آیا آپ اپنی ماں کی بات مانتے ہیں، اس کے فرماں بردار ہیں تو یقیناً جواب میں یہی کہا جائے گا کہ یہ تو عین فطرت ہے۔

جب یہ طے ہے کہ آپ کے نزدیک سب سے اہم رشتہ ماں کا ہے اور آپ یہ کہنا پسند نہیں کرتے کہ ماں کا احترام کسی بھی وجہ سے پس پشت ڈالا جاسکتا ہے……{خاکسار کے الفاظ میں (اصل ذاتی، انگریزی بیان کا ترجمہ) ’ماں دنیا کا سب سے عظیم رشتہ ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ مادری زبان ہی دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے}‘…….تو پھر کیا سبب ہے کہ آپ محض مغرب کی کورانہ تقلید میں، مغرب زدگان کی تقلید میں یا اُنھیں خوش کرنے کے لیے، ’’فادری‘‘ یعنی فرنگی زبان (خواہ غلط ہی سہی) ہی بولنا اور جابجا لکھنا پسند کرتے ہیں؟ میرے مخاطب وہ لو گ ہیں جنھیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ماں سے تعلق کا اظہار فقط یہ کہہ کر کرنا کافی نہیں، I love my mom!، بلکہ اس سے قلبی تعلق کے اظہار کے لیے اس کی ہر جائز بات ماننا ضروری ہے۔

انھیں یہ کسی نے نہیں بتایا کہ محبت کا خالی خولی اظہار ہی کافی نہیں، بلکہ محبت کے عملی اظہار کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اپنے محبوب جیسا بنالیا جائے، اس کی ہر ادا، ہر قدم، ہر نقش قدم کی پیروی، اتباع اور تقلید کی جائے، کیونکہ بقول ہمارے علمائے کرام کے، محبت کا دعویٰ اسی وقت سچا ہوتا ہے جب اپنے محبوب کو آئینہ بنا کر اسی کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ ماں سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اُس کی ماں سے شعوری گریز بھی کرتے ہیں، یہ شتر گربہ والی رَوِش کیسی؟ جب بھی آپ سے کوئی سوال اردو میں کیا جائے، آپ یا تو جواب ہی نہیں دے پاتے یا انگریزی بھی دیسی انداز میں جھاڑتے ہیں یا خالص انگریزی کی بجائے، عموماً مخلوط زبان (اردو اور انگریزی نیز کبھی کسی علاقائی زبان کی کھچڑی) بولتے ہیں جسے پہلے Hinglish, Zinglish,Minglish جیسے ناموں سے یاد کیا گیا، پھر خاکسار نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں (طنزاً) بہ بانگ دُہل کہا: ”Our lingo is Burgerish”یعنی ہماری بولی ’’برگرش‘‘ ہے۔ بات یہیں تمام نہیں ہوتی، بلکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ دیسی انگریز، مسٹربراؤن یا بقول کسے کالے انگریز، اُس وقت بغلیں جھانکنے لگتے ہیں جب ان سے ’’فادری‘‘ زبان میں جم کر گفتگو کی جائے۔

پاکستان میں ایسے دیسی انگریزوں کی تعداد ایک فی صد بھی کیا ہوگی جو اپنی ’’فادری‘‘ زبان میں خالص ’’فادرانہ‘‘ یعنی برطانوی لہجے میں، برجستہ، برمحل، درست بات چیت کرسکیں، کم از کم پانچ منٹ۔ {معاف کیجیے گا یہ کسی ’’Urdu-medium‘‘ بدتمیز، کم خواندہ اور انگریزی سے پیدل شخص کا احساس کمتری نہیں، بلکہ بحمداللہ! (یعنی اللہ کی تعریف کے ساتھ) ایسے شخص کا اظہارِخیال ہے جو مختلف شعبہ ہائے حیات میں کام کے تجربے اور دولسانی [Bi-lingual] (ناکہ ذواللسانی) مہارت سے مالامال ہے، اردو سے تعلق خاطر کی بِناء پر مشہور ہے، مگر اس وقت اس کی انگریزی تحریروں کی تعداد، اردو سے زیادہ ہے (محض اتفاقاً)}۔ ایک انھی مغرب زدگان پر کیا موقوف، اب تو ہر جگہ، ہر شعبے کا آدمی وہی بولی بول رہا ہے یا بولنے کی کوشش کررہا ہے جو آقا تو بہ اَمر مجبوری بولتے تھے (Well, Kala loug ٹُم گائے گائے بولٹا، یہ نئیں بولٹا کہ بیل کا Memصاب ہے)۔

جمعدار(فوج والا بھی اور مہتر بھی)، مالی، مزدور، ترکھان، جولاہا، سبزی فروش، پھل فروش (یا میوہ فروش)، پرچون والا، تھوک کا بیوپاری، بڑا تاجر، طالب علم، معلّم، بینکار، شاعر، ادیب، صحافی، ٹیلی وژن صحافی، مقرّر، گھریلو خواتین ، مشتہر، اشتہارساز، اختراع نگار[Copywriter, in my own terms] سبھی اردو کے سوال کا جواب انگریزی میں دینا چاہتے ہیں، خواہ غلط ہو، ادھورا ہو، ناقص ہو، حتیٰ کہ قابل اعتراض ہو۔ ایسا کیوں ہے یا ایسا کیونکر ممکن ہوا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ (یہ آوا کیا ہوتا ہے، ذرا لغات اٹھاکر دیکھ لیں)۔ بات قدرے مشکل ہوجاتی ہے، مگر رَوانی میں کہنا پڑتا ہے کہ عربی مقولے ’’النّاس علیٰ دین ِ ملوکہم‘‘ والا معاملہ ہے یعنی عوام تو حاکموں کی پیروی کرتے ہیں، اُنھی کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ ہمارے حاکم تو ایسے ہی لوگ ہواکرتے ہیں جو ’’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘ کی عملی تفسیر ہوتے ہیں، ’’نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم‘‘ کا مجسم نمونہ ہوتے ہیں اور پھر ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ پر سدا عمل پیرا رہتے ہیں۔

تبدیلی سرکار نے کوئی اور اچھا کام کیا ہو نہ کیا ہو، عوامی اجتماعات سے اردو میں خطاب کا وہ طرز اپنانے کی سعی ضرور کی ہے جو سابق آمر مطلق جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنایا تھا اور بڑی حد تک، سابق صدر ممنون حسین، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور بعض دیگر رہنماؤں کا چلن تھا۔ یہ الگ بات کہ وزیراعظم سمیت کوئی بھی اچھی اردو جانتا ہے ناہی سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ تحریری بیان وتقریر کا قائل ہی نہیں۔ یہ بھی قابل اعتراض ہے۔ {لفظ طرز دِلّی اور گردونواح میں مذکر بولا جاتا رہا ہے اور لکھنؤ اور اُن کے مقلدین کے نزدیک مؤنث ہے۔

خاکسار بھی کبھی کبھی ایسا عمداً کرتا ہے کہ لوگ اپنی زبان کی تعلیم وتفہیم کی طرف راغب ہوں}۔ بات کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے فعال کارکنان اور رہنما، بے شمار مرتبہ نوازشریف کی انگریزی دانی کا مذاق اُڑاچکے ہیں، کبھی اُن کی اردودانی کی تعریف نہیں کی نا ہی مسلم لیگ (نوازگروپ) کے لوگوں نے کبھی یہ کہا کہ عمران خان خود کیسی اردو بولتے ہیں۔ قابل اعتراض تو یہ بھی ہے کہ وزیراعظم کی Tweet کا برجستہ اردو ترجمہ بھی گوگل کے خودکار مترجم آلے سے کرایا جارہا ہے جو مزید خرابی کو جنم دینے کا باعث ہے۔ بہرحال یہ تکنیکی اعتراضات اپنی جگہ، ہم ’’کیچڑمیں کنول کھِلانے‘‘ کی اس مستحسن کاوش کے اولین مدّاح ہیں، کیونکہ اچھا کام اچھا ہوتا ہے او ر اس کی برملا تعریف بھی کرنا ہر ایک پر واجب ہے، خواہ ایسا کام انجام دینے والا ہمارا مخالف یا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں ذرا ٹھہرکر یہ نکتہ بھی ملاحظہ فرمالیں، قندمکرر سمجھ کر: ہم قیام پاکستان سے اب تک انگریزی ذریعہ تعلیم اپنے اوپر مسلط کرنے کی سعی نامشکور میں گویا مصروف ہی نہیں، مبتلا بھی نظر آتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اتنی انگریزی بھی نہیں سیکھ پاتے (نہ سکھا پاتے ہیں) کہ کسی بھی کام کے لیے تبادلۂ خیال یا بات چیت کے لیے کارآمد ہو۔ یہ فقط اردو میڈیئم کا مسئلہ نہیں، ہمارے اولیول والے ’برگر‘ بھی کسی بڑے سپراسٹور میں اتنی انگریزی نہیں بول پاتے۔ آزمائش شرط ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں مختلف ممالک کے بہت سے نصاب پڑھائے جاتے ہیں، مگر انگریزی بطور زبان، خصوصاً روزمرّہ کی بول چال کا درس نہیں دیا جاتا۔ جب ایسے لوگ بھی کسی دوسرے سے بات کرتے ہیں جسے انگریزی نہ آتی ہو یا کم آتی ہو تو خود اُن کی اپنی انگریزی دانی کا امتحان ہوجاتا ہے۔

یہاں میں اپنے موضوع سے متعلق ڈاکٹر اشفاق احمد ورک صاحب کی ایک تحریر، مادام فاطمہ قمر (پاکستان قومی زبان تحریک) صاحبہ کے شکریے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں:”ہمارے یہاں ایک مالی سے خاکروب تک کی بھرتی اور تبادلے کے احکامات انگریزی میں جاری ہوتے ہیں، حالانکہ یہ سچ بات ہے کہ اسی مالی اور خاکروب سے آپ ساری عمر اس زبان میں پھولوں کی گوڈی نہیں کرواسکتے۔یا۔ دفتر میں صفائی کرنے کا حکم جاری نہیں کرسکتے۔ پون صدی سے ہمیں انگریزی کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے، جب کہ عملی طور پر ہم بہتّر (۷۲) سال میں اس قابل بھی نہیں ہوسکے کہ انگریزی زبان میں (بات کرکے) بازار سے آلو یا بھنڈیاں خرید سکیں، اس زبان میں ٹکٹ وصول کرنے والے سے بقایا (بقیہ رقم) نہیں مانگ سکتے، ماں سے لاڈ نہیں کرسکتے، دوستوں سے شکوہ نہیں کرسکتے۔ اللہ سے دعا و التجا نہیں کرسکتے۔ مکمل اظہار محبت نہیں کرسکتے۔ گھر سے کوڑا اٹھانے والے سے شکایت نہیں کرسکتے۔ درزی سے سلائی نہیں کرواسکتے۔ ضد کر کے قصائی سے پُٹھ کا گوشت نہیں خرید سکتے۔ تربوز کچا نکلنے تک کی شکایت نہیں کرسکتے۔” قومی زبان تحریک اور اس سے متفق، مماثل نیز ہم خیال متعدد تنظیمیں اپنے اپنے طور پر اردو کے بطور سرکاری/دفتری زبان اور ذریعہ تعلیم رائج کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سب ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں اور مؤثر طریقے سے اپنی بات منوائیں۔ اول الذکر کے واٹس ایپ گروپ کے ایک رکن نے امریکا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ اردو کے نفاذ کے لیے سیاسی انداز میں تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی تشریح تو اُنھی سے پوچھی جائے، مگر راقم کا خیال ہے کہ جب تک ہر شعبہ زندگی سے متعلق مشاہیر اور اہم شخصیات کو اس مقصد واحد کے لیے یکجا نہ کیا جائے، متفق لائحہ عمل نہ طے کیا جائے، ماہرین اور علماء اپنی خدمات نہ پیش کریں، مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مقابلے کے امتحانات کا انعقاد بھی عدالتی حکم کے برعکس، ابھی تک انگریزی زبان ہی میں ہورہا ہے، جبکہ تقریباً تمام اہم وغیراہم مقامات پر ملازمت کے لیے انٹرویو اور آزمائش کے لیے بھی انگریزی ہی استعمال ہورہی ہے۔ میں بصد اَدب گزارش کروں کہ اگر افواج پاکستان میں بھرتی اور اُن کے زیراہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں میں، اردو میں انٹرویو کا سلسلہ شروع ہو تو یقیناً دیگر بھی اس کی تقلید کریں گے۔

جب محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ سے پوچھا گیا کہ اُن کی اور ہم خیال حضرات کی تحریک کے نتیجے میں، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ صادر ہوجانے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو اُنھوں نے کہا کہ ’’تحریک کی جانب سے عدالت عالیہ میں آئینی درخواست جمع کروائی گئی، جو کئی سال کے لمبے روایتی چکروں کے بعد منظور کرلی گئی۔ تاہم تاریخ پر تاریخ کی روایتی تاریخ برقرار رہی۔ بالآخر 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی زبان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو 90 دن کی مہلت دے دی۔ اور حکم دیا کہ نوے دن کے اندر اندر حکمران آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے قومی زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کریں۔ اس نوے دن کی مہلت کو گزرے بھی عرصہ بیت گیا، مگر حکمرانوں نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ تاہم کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر اپنے اپنے ماتحت دفاتر میں قومی زبان نافذ کر دی ہے۔

عمل درآمد مکمل کب ہوگا، کچھ کہا نہیں جا سکتا، مگر اس تحریک کے لیے اپنی تمام توانائیاں خرچ کر دینے والے ہیرو ہمیشہ تاریخ میں اچھے لفظوں میں یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے بغیر کسی ذاتی مفاد ولالچ کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کے اس بنیادی حق کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں، وہ قابل تعریف و تحسین ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اہل اقتدار کی کیا مجبوری ہے یا مجبوریاں آڑے آرہی ہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فرمان اور آئین پاکستان میں درج واضح شق نیز قائداعظم محمدعلی جناح کے فرمودات پر عمل درآمد سے کترارہی ہے؟……بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان (مترجمہ) نقل کررہا ہوں:’’میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے، پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی‘‘۔

21 مارچ 1948 :ڈھاکہ۔ (مقتدرہ قومی زبان کی سرکاری ویب سائٹ: http://www.nlpd.gov.pk/)۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل ۱۵۲ کے مطابق:۱۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔۲۔ شق نمبر ایک کے مطابق، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔۳۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔

(مقتدرہ قومی زبان کی سرکاری ویب سائٹ: http://www.nlpd.gov.pk/)۔ یہ سب کچھ ملاحظہ فرمالیا ہو تو یہ بھی دیکھیں کہ مقتدرہ قومی زبان (موجودہ ادارہ فروغ قومی زبان) کا تعارف اس کی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر کیا درج ہے:’’ادارہ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان ‘اردو’ کے بحیثیث سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے، نیز مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔‘‘ وفاقی وزیرتعلیم جناب شفقت محمود نے پانچویں جماعت تک نصاب کے اردو میں مرتب کیے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ معاملہ تمام سطحوں پر بالاتفاق طے کرنا ہوگا۔ حسب سابق ، خاکسار اپنے اس قول کا اعادہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مادری زبان سے تعلق خاطر اور اس کے فروغ کے لیے کام کرنے کا درس ہمیں سنت نبوی (ﷺ) سے ملا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو آخری باتیں بھی قندمکرر کے طور پر: اردو کے سوا کوئی دوسری زبان اس لائق نہیں کہ اسے قومی، سرکاری، دفتری اور رابطے کی زبان بنایا جاسکے اور پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم کی ترتیب وترویج میں بھی اردو ہی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔