معروف دانشور جمیل الدین عالی کو بچھڑے 5 برس بیت گئے

اسٹاف رپورٹر  پير 23 نومبر 2020
جمیل الدین عالی کو اردو ادب میں ان کی خدمات کے اعتراف پر پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا (فوٹو: فائل)

جمیل الدین عالی کو اردو ادب میں ان کی خدمات کے اعتراف پر پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا (فوٹو: فائل)

 کراچی: معروف دانشور جمیل الدین عالی کی 5 ویں برسی آج منائی جارہی ہے، اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کی فہرست طویل ہے اور انھوں نے مشہور ملی نغمے بھی تحریر کیے۔

معروف ادیب، شاعر، دانشور، نقاد، کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی 20 جنوری سن 1925ء کو دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بیک وقت شاعر، ادیب، محقق، کالم نگار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے دادا غالب کے شاگردوں میں شامل تھے۔ جمیل الدین عالی کے والد شاعر جبکہ والدہ کا تعلق اردو کے مشہور شاعر میر درد کے خاندان سے تھا۔ وہ کئی سال تک اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ رہے۔اور پچپن سال تک انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔

جمیل الدین عالی کے اردو ادب کی مشہور کتابوں میں اے میرے دشت سخن، جیوے جیوے پاکستان، لاحاصل اور نئی کرن شامل ہیں۔ ادبی کتابوں کے علاوہ ان کے سفرناموں میں دنیا میرے آگے، تماشا میرے آگے، آئی لینڈ اور حرفے شامل ہیں۔

جمیل الدین عالی نے سن 1965ء کی جنگ میں وطن عزیز کے لیے کئی ملی نغمے لکھے، معروف ملی نغموں ’’ اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ ، ’’ اتنے بڑے جیون ساگر میں توں نے پاکستان دیا‘‘ کے علاوہ انھوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ’’ ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ہم مصطفوی ہیں‘‘ تحریر کیا۔

جمیل الدین عالی کو اردو ادب میں ان کی خدمات کے اعتراف میں سن 1991ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور سن 2004ء میں تمغہ امتیاز دیا گیا۔ وہ طویل علالت کے بعد 23 نومبر سن 2015ء کو انتقال کرگئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔