حکومت اور اپوزیشن فہم و فراست کا مظاہرہ کریں

ایڈیٹوریل  پير 23 نومبر 2020
اس طریقے سے دھاندلی کا کلچر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

اس طریقے سے دھاندلی کا کلچر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

ملک کے کاروباری اور سیاسی منظرنامے پر غور کیا جائے تو سوائے دھندلاہٹ کے کچھ صاف نظر نہیں آ رہا‘ کاروباری طبقے کے اپنے مسائل ہیں‘ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے ٹکراؤ کی پالیسی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ملک میں کوئی ایسی قد آور شخصیت بھی نظر نہیں آ رہی جو حکومتی سیاستدانوں اور اپوزیشن سیاستدانوں کو ٹکراؤ سے بچا سکے۔

ایسی صورت حال میں کورونا وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور پاکستان بھی اس وباء سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کی شدت میں اضافہ امسال فروری اور مارچ میں ہوا‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ڈھل مل پالیسیوں نے کاروباری صورت حال کو خراب کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ سندھ حکومت کراچی میں لاک ڈاون کر رہی تھی اور وفاقی حکومت نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح اختیار کر لی۔

بہر حال اصل حقائق یوں ہیں کہ پاکستان میں تقریباً 10ماہ سے کاروباری سرگرمیاں بڑھنے کے بجائے مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ درمیانے درجے کے ایسے کاروباری حضرات جو کرائے کی جگہوں پر اپنا کاروبار کر رہے تھے ‘ وہ تقریباً اپنا کاروبار بند کر چکے ہیں کیونکہ کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے وہ جگہ کا بھاری کرایہ ‘بجلی کا بل اور  ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔

اسی طرح مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں بھی ڈاؤن سائزنگ کی وجہ سے بیروزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر کسی ادارے یا کمپنی میں کوئی آسامی آتی ہے تو لاکھوں کی تعداد میں درخواستیں جمع ہوتی ہیں۔

حکومت اگر ان درخواستوں کو ہی کاؤنٹ کر لے تو کم از کم پڑھے لکھے نوجوان طبقے میں بیروز گاری کی شرح کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا ‘ بلاشبہ حکومت جواقتصادی اشاریے اور اعدادوشمار بتا رہی ہے وہ اپنی جگہ درست ہوں گے‘ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی یقیناً کم ہوا ہو گا ‘ بیرون ممالک پاکستانیوں نے زیادہ مقدار میں رقوم پاکستان میں بھیجی ہوں گی لیکن اصل سوال تو گراس روٹ لیول پر جا کر عوام کا معیار زندگی چیک کرنا ہے۔

کاروباری جمود کی وجہ سے سب سے زیادہ ملک کی مڈل کلاس متاثر ہوئی ہے ‘ مختلف اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کے باعث جو بیروز گاری پیدا ہوئی ‘ اس سے بھی مڈل کلاس ہی متاثر ہوئی ہے ۔ پڑھے لکھے نوجوان بیروز گاروں کی غالباً 90فیصد تعداد کا تعلق بھی مڈل کلاس گھرانوں سے ہی ہے۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کے ابتدائی اڑھائی برس میں سب سے زیادہ نقصان شہروں میں بسنے والی مڈل کلاس کا ہوا ہے۔ زرعی طبقے سے تعلق رکھنے والے طاقت ور زمیندار‘خیبرپختونخوا ‘جنوبی پنجاب ‘بلوچستان اور سندھ کے قبائلی سرداروں کا کورونا بحران سے کوئی نقصان نہیں ہوا ۔

ٹڈی دل سے بھی چھوٹا کسان ہی متاثر ہوا ہے ‘ کماد کی فصل بھی چھوٹے کسان کی ہی خراب ہوئی ہے ‘ اہم ترین بات یہ ہے کہ طاقتور زمینداروں اور قبائلی سرداروں کا ملکی ترقی اور خزانے میں اضافے میں حصہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ خیبرپختونخوا کے سیٹلڈ ایریازکے شہروں میں بھی بغیر نمبر پلیٹ کے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں عام نظر آئیں گی ‘ دیہی سندھ میں بھی یہی صورت حال ہے۔پورے بلوچستان میں ایم سی پی گاڑیاں چل رہی ہیں ۔

اگر صوبائی حکومتیں اپنے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو متحرک کریں اور بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو بند کریں اور ان سے رجسٹریشن فیسں وصول کریں تو ان کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ ادھر حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں چمن کے ساتھ پاک افغان بارڈر پر جو تجارت ہو رہی ہے ‘ اس میں بھی غیرقانونی کام کرنے والے فوائد اٹھا رہے ہیں جب کہ سرکار کو اس قدر محصولات موصول نہیں ہو رہے جتنے کہ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان سے چمن تک چھوٹی سے لے کر بڑی گاڑیاں تک بلاروک ٹوک آ رہی  اور وہاں سے یہ گاڑیاں پورے ملک میں فروخت ہو رہی ہیں ‘ کسی حکومت نے اس صورت حال کو روکنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ  افغانستان سے پاکستان آنے والی گاڑیوں پر چمن آنے سے پہلے بارڈر کراسنگ پر ہی کسٹمز یا سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنی چاہیے ۔ اس طریقے سے وفاق کے خزانے میں اچھا خاصا ریونیو آئے گا اور لوگ بھی بآسانی اور قانونی انداز میں خریدوفروخت کر سکیں گے‘ اس اقدام کی وجہ سے دو نمبر کام کرنے والے گروہوں کا خود بخود ہی خاتمہ ہو جائے گا۔

ادھر وزیراعظم عمران خان نے ہفتے کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ اپوزیشن اراکین جو کورونا پر قابو پانے کے لیے پہلے ملک میں سخت ترین لاک ڈاؤن نہ ہونے پر تنقید کرتے تھے‘ اب جلسے کرکے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔جناب وزیراعظم نے خبردار کیا کہ ملک میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن نہایت عاقبت نااندیش اپوزیشن کو سیاست کی پڑی ہے ۔کیفیت یہ ہے کہ عدالتی احکامات ہوا میں اڑا کر یہ لوگ  جلسے کرنے پر مُصر ہیں۔مختلف وفاقی وزرا نے بھی ملک میں کورونا کی بگڑتی صورت حال کے باوجود اپوزیشن کی طرف سے جلسوں پر بضد رہنے کوخطرناک رویہ قراردیا ہے ۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کے سخت بیانات کو سامنے رکھیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کورونا وبا کے نام پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔

اس وباء کی آڑ میں حکومت اپوزیشن کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے ‘ یہ حکومت کا حق بھی ہے۔ حکومت کا پہلا فرض ہی عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے ‘ اقتدار میں خواہ کوئی بھی پارٹی ہو ‘اس پر ایک جانب تو عوام کی جان و مال اور کاروبار کا تحفظ کرنا فرض ہوتا ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کو سیاسی میدان میں منطق اور استدلال کے بل بوتے پر شکست دینا ہوتا ہے۔

حکومت جتنا زیادہ ڈیلیور کرے گی ‘ اپوزیشن کا بیانیہ اتنا ہی زیادہ کمزور ہوتا چلا جائے گا ۔ کورونا وباء کے حوالے سے وزیراعظم اور ان کے وزراء کا استدلال غلط نہیں ہے ‘ یہ وباء ایک حقیقت ہے اور لوگ اس کا شکار بھی ہو رہے ہیں لیکن جہاں تک حکومت کی گورننس اور اس کی ڈیلیورنس کا معیار ہے تو اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سرکاری اسپتالوں میں عام شہری کے لیے شاید کوئی جگہ ہی نہیں ہے ۔ سرکاری اسپتالوں میں بھی بااثر افراد اپنے مریضوں کے لیے با آسانی اچھے کمرے بھی بک کروا لیتے ہیں اور ان کو ادویات بھی مل جاتی ہیں جب کہ ڈاکٹرز بھی ان پر توجہ دیتے ہیں لیکن عام شہری اپنے مریضوں کے ٹیسٹوں اور دوائیوں کی پرچیاں اٹھائے ادھر ادھر بھٹکتے نظر آئیں گے۔

ملک کے اس منظرنامے کو دیکھ کر کسے سچا مانیں اور کسے جھوٹا کہیں ‘یہ ہمارا کام نہیں ہے ‘ ہر چیز ملک کے عوام اور فہمیدہ حلقوں کے سامنے ہے اور ہر ایک نے اپنی رائے بھی بنا رکھی ہے‘ اس رائے کا اظہار وہ الیکشن میں اپنے ووٹ کے ذریعے کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن اس کے لیے ملک میں الیکشن کا عمل نقائص سے پاک ہونا انتہائی ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتظامی لحاظ سے مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے ‘ چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنر ‘ حاضر سروس بیوروکریٹ ہونے چاہئیں ‘ ملک میں جرات مند ‘بااصول اور ایماندار افسروں کی کمی نہیں ہے۔ ٰ

بیوروکریسی کے افسران کی اکثریت پر حکومت اور اپوزیشن یقیناً اعتماد کا اظہار کر دیں گی ‘ ضرورت صرف یہ ہے کہ انھیں تمام قسم کے انتظامی اختیارات دیے جانے چاہئیں ‘ عبوری وزیراعظم اور عبوری وزرائے اعلیٰ کا کام محض روز مرہ معاملات کی انجام دہی اور نگرانی کرنا ہونی چاہیے۔ تقرر و تبادلے کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہونا چاہیے ‘ پولیس اور ضلعی انتظامیہ بھی الیکشن کمیشن کے ماتحت ہونی چاہئیں ‘ اس کے لیے پارلیمنٹ قانون سازی کردے تو معاملات ہمیشہ کے لیے حل ہو جائیں گے اور جوں ہی برسراقتدار حکومت کی آئینی مدت پوری ہو گی ‘ وزیراعظم اور اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت تشکیل پا جائے گی۔

اس کے ساتھ ہی خود بخود تین ماہ کے لیے تمام انتظامی ادارے اور ان اداروں میں تقرر و تبادلے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جانے چاہئیں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک کا انتخابی نظام درست نہیں ہو سکتا۔ جب پولیس اور ضلعی انتظامیہ الیکشن کمیشن کے ماتحت ہو گی تو نگران حکومت کا وزیراعظم ‘ وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزیر انتظامیہ اور پولیس پر اثرانداز نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کا آئینی حق نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ پولنگ کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ کوئی ووٹ غلط پول نہ ہو سکے اور نہ ہی غلط گنتی ہو سکے۔

اس طریقے سے دھاندلی کا کلچر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے بجائے ملک کے عوام اور ان کے کاروبار کا تحفظ کرنے کے لیے اکٹھا بیٹھ کر پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔اس طریقے سے ہی ملک کو کورونا وباء سے بھی بچایا جا سکتا ہے اور معیشت کو بھی چلایاجا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔